محمد اشفاق عالم نوری
رابطہ نمبر۔9007124164
عزیزان ملت اسلامیہ! پڑوسی اور ہمسایہ ایسے دو لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے قریب رہ کر زندگی گزارتے ہیں، انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس کے لیے تن تنہا زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ایک دوسرے کے تعاون اور اشتراک عمل سےہی وہ زندہ رہ سکتا ہے،اس دنیا میں ہر شخص ایک دوسرے کا محتاج ہے۔اگر ایک مرض میں مبتلا ہوجاے تو دوسرا اس کی عیادت کرے۔ اگر ایک پر کوئی مصیبت آئے تو دوسرا اس کا شریک غم ہو اوراس طرح اخلاق و محبت کی ان ذمہ داریوں میں بندھ کر ایک ہوجائے اس سے باہمی تعلقات خوشگوار ہوں گے اور دین اسلام نے ہمیشہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر ابھارا ہے۔اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے : ” اور اللہ کی بندگی کرو اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اورپاس کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اوراپنی باندی سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا ۔( سورہ نساء36)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دو طرح کے پڑوسیوں کا ذکر ہے ایک ایسا پڑوسی جو رشتہ دار بھی ہو اور ایک ایسا پڑوسی جو پہلو میں رہتا ہو مگر اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہو۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ پڑوسی کون ہے تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا “تمھارے گھر کے آگے پیچھے،دائیں بائیں کے چالیس چالیس گھر یہ سب تمہارے پڑوسی ہیں۔ پڑوسی چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہوں ایک اچھے پڑوسی کا حق ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھے،اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچائے اس کی دکھ درد میں شریک ہو، اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچائے اس کی عزت و آبرو کا ہمیشہ خیال رکھے اس لیےکہ پڑوسی کا خیال رکھنا حقوق العبادمیں سے ہے۔حقوق اللہ میں سے نہیں ہے۔ حقوق اللہ عزوجلکا تعلق رب کائنات سےہے کہ اگر وہ چاہے تو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے ،حقوق العباد کا تعلق بندہ سے ہے کہ جب تک بندہ معاف نہیں کرتا اللہ رب العزت بھی اسے معاف نہیں کرتا، لہذا بندہ کو ہر وقت ایسا کام کرنا چاہیے جو اس کے رب کو ناراض نہ کرے اور حقوق اللہ عزوجل اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی طرح کوتاہی نہ کرے۔
حضور اکرم ﷺ نے مختلف مواقع پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔ایک موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا” خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو (بخاری شریف)ایک دوسرے مقام پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے( بخاری)ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہمیشہ یوں تاکید کرتے رہے کہ گمان ہوتا تھا وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔(بخاری)
پڑوسیوں کو ایذا رسانی والا جہنمی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا،یارسول اللہ! فلاں عورت اپنی نماز،روزہ اور خیرات کی کثرت کے باعث مشہور ہے ،مگر وہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا،وہ جہنم ہے ۔اسی شخص نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں عورت کے متعلق کہتے ہیں کہ روزےکم رکھتی ہے،صدقات خیرات میں بھی کمی کرتی ہے اور نماز بھی کم پڑھتی ہے ،مگر اپنے پڑوسیوں کو دکھ نہیں پہنچاتی۔آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے ۔ پڑوسیوں میں محبت اور تعلقات کا بہترین ذریعہ ہدیوں اور تحفوں کا لین دین ہے ۔حضور اکرم ﷺ خود اپنی زوجہ محترمہ کو اسکی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اسی بنیاد پر ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا، یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں ،اگر مجھے کوئی ہدیہ تحفہ بھیجنا ہو تو میں ان میں سے کس کے پاس بھیجوں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے گھر کادروازے تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو (بخاری شریف) ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو نصیحت فرمائی کہ اے ابو ذر! جب شوربہ پکاؤ تو اس میں پانی بڑھادو اور اس سے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرتے رہو۔(مسلم شریف) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، میں نے حضور اکرم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود پیٹ بھر کر کھاے اور اس کا پڑوسی اسکے پہلو میں بھوکا ہو۔ایک پڑوسی کا حق یہ ہے کہ جب اس کا پڑوسی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ،اگر وہ مرجائے تو اسکے نماز جنازے میں شریک ہو اور اگر وہ قرض مانگے تو اسے قرض دے اگر اسے کسی برائی میں دیکھے تو اس کو برائی سے روکے ، اگر اس کو کوئی خوشی لاحق ہو تو اسے مبارکباد پیش کرے، اگر وہ کسی مصیبت میں ہو تو اس کی خیریت معلوم کرے، اور حتی المقدور مدد کرے اور اس کے مکان سے اونچا اپنا مکان نہ تعمیر کرے کہ ہوا رک جائے اور ایسا کھانا نہ پکاے جس کی خوشبو سے اس کی اشتہا کو ہوا ملے جب کہ وہ خود اسکی حیثیت نہ رکھتا ہو۔الا یہ چیز کہ اسے وہ چیز ہدیہ میں دے ۔
شوربا زیادہ بناؤ:
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا اے ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: 1.امیر کی اطاعت کرو اگرچہ کوئی نکٹا غلام امیر بنادیا جائے۔2.جب کبھی شوربا بناؤ تو پانی خوب ڈال لیا کرو۔پھر اپنے آس پاس کے حاجتمند ہمسایوں کو پہنچاؤ۔3.نماز اسکے مستحب وقت میں پڑھا کرو۔ (تنبیہہ الغافلین) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجا کروں؟ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ” جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے نزدیک ہے۔
محبت بڑھانے کا طریقہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا”اے عائشہ! پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دو کہ اس سے محبت بڑھیگی۔”(دیلمی) حضرت نافع بن عبدالحارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا” مرد مسلمان کے لئے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے کہ اس کا پڑوسی صالح (نیک) ہوا ر مکان کشادہ ہواور سواری اچھی ہو۔” (حاکم) اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ ہم جملہ مسلمانوں کو ہمسایوں اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین