سرفراز عالم، عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373
’’سائنس ایک نعمت ہے یا مصیبت‘‘ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر شاید اب تک سب سے زیادہ بحث کی گئی ہوگی لیکن حتمی طور پر اب تک فیصلہ کن جواب نہیں دیا جا سکا ہے اور نہ مستقبل میں کبھی دیا جا سکے گا۔میری سمجھ میں اس کی صرف ایک وجہ ہے وہ یہ کہ سائنس بظاہر دین یعنی (زندگی گزارنے کا فطری طریقہ کار ) کےمتصادم نظر آتا ہے ۔سائنس تجربہ پر یقین کرتا ہے جبکہ مذہب وحی یعنی (اللہ کے احکامات) پر یقین کرتا ہے ۔پتہ کس نے اس بات کی بنیاد ڈالی کہ جو بات سائنس سے ثابت ہو وہی سچ ہے۔سائنس کے تجربے میں آئی ہوئی چیزیں حالات کے ساتھ غلط ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اللہ کی دی ہوئی خبریں کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔اس لیے کہ اب تک کی لگ بھگ تمام سائنسی ترقی کی بنیاد تجربات پر ہے جو بدلتی رہتی ہےجبکہ وحی کی خبریں ہمیں وہاں تک پہنچاتی ہیں جہاں سائنس تجربےکی بنیاد پر آخری مقام حاصل کرتا ہے ۔اسی لئے سائنسی ترقی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور احکام خداوندی میں کوئی بدلاؤ نہیں ہوتا ہے ۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس اپنے صحیح موقف میں اللہ کی وسعت قدرت کی تلاش کاایک ذریعہ ہے ۔
سائنس فائدہ کے ساتھ نقصان بھی پہنچاتا ہے جبکہ دینی احکامات میں صرف فائدہ پوشیدہ ہے ۔سائنسی علوم صرف ظاہری اور عارضی فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ دینی علوم دائمی کے ساتھ ہی ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے مفید ہوتے ہیں ۔چونکہ سائنس ہمیں فوری طور پر نتائج دکھاتا ہے شاید اس لیے ہم ہمیشہ اس سے زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔میں سائنس کے جائز یا ناجائز ہونے کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سائنس صرف اپنے تجربے میں ثابت شدہ حقائق کو ہی صحیح مانتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن خود سائنس کی مدد سے اللہ کی نشانیوں کو سمجھنے اور غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔بلکہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ آج کی سائنسی ترقی کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کروا رہا ہے اور بالآخر اپنی قدرت کو ثابت کردے گا ۔مثلاً موبائل کی میموری میں جس قدر ڈاٹا اسٹور ہوجاتا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔اب ذرا سوچئے قیامت کے دن اللہ حجر اسود کو گویائی عطا فرما دے گا اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے اسے دیکھا یا بوسہ دیا ہوگا ۔یہ خبر ہمیں اللہ نے اپنے محبوب محمد صل اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دی جس کا نمونہ ہم آج موبائل کی میموری چپس کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں ۔
دوسری مثال کے طور پر موبائل میں جب ہم کسی اچھی یا بری چیز کو ایک دیکھ لیتے ہیں تو دوبارہ اس سے متعلق مواد اپنے آپ آ جاتا ہے ۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان جب اچھائی یا برائی کو پہلی بار کرتا ہے تو پھر اللہ اسی راستہ کو کشادہ کردیتا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ ہر زمانے میں اپنی قدرت کا اظہار مروجہ سائنسی آلات کے ذریعے بھی دکھاتا رہتا ہے اور آئندہ اس وقت تک دکھاتا رہے گا جب تک کہ انسان اللہ کی ساری قدرت کو سائنس کے ذریعہ زمین پر اترتا ہوا نہ دیکھ لے ۔انسانی ترقی نے اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دیکھی ہیں ۔پھر یا تو اللہ کو اپنا کارساز مان لے یا سائنسی تجربات کو اپنا خدا بنالے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سائنسی آلات، ایجادات اور انکشافات پر آنکھ بند کرکے بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ عقل و فہم کے مطابق فطرت کی کسوٹی پر ضرور پرکھ لے۔ورنہ یاد رہے کہ دجال و شیاطین انہی سائنسی ایجادات کے رستے سے ہمیں گمراہ کر رہے ہیں ۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی سائنسداں اپنا کوئی ایجاد انسان کی بھلائی اور ترقی کے لئے ہی کرتا ہے۔ کچھ شیطانی دماغ اس کا غلط استعمال کرکے اس کو انسانوں کے لئے نقصان دہ بنا دیتے ہیں۔
بحرحال ذیل میں ہم چند سائنسی آلات کی ترقی کو اپنی زندگی کا حصہ بنالینے کے سبب ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
جدید سائنسی آلات نے بیشک ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں مگر اخلاقی اور جسمانی بگاڑ بھی پیدا کیا ہے۔
یاد کیجیے جب پہلی بار ٹیلی ویژن سامنے آیا تو ہمارے گھروں کے بچوں کو اسکرین پر ایک رنگین دنیا دیکھنے کو ملی تھی اور آج ہر ہاتھ میں ایک چلتا پھرتا شیطان وجود لے چکا ہے ۔
شروع میں ٹیلی ویژن ایک شوق تھا دھیرے دھیرے ضرورت بن گیا اورآج ایک مجبوری بن چکا ہے ۔
اب جدید طرز کا موبائل ٹیلی ویژن ایک طرف ہمارے پیسہ کو فضول خرچ کروا رہا ہے وہیں ہم کتب و رسالے سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔
ٹیلی ویژن کے بڑے بڑے اسکرین نے آج گھروں کو سنیما ہال بنا دیا ہے۔
ہمارے گھروں میں طرح طرح کے سائنسی آلات نے آسانیاں ضرور پیدا کی ہیں وہیں ہماری عورتوں کو کاہل بھی بنا دیا ۔
باورچی خانے میں مکسچر گرائنڈر آیا، کھانے کا مزہ چلا گیا اور فضول خرچی بڑھ گئی ۔
21 ویں صدی میں مادیت کے غلبے نے ہمیں سائنسی ایجادات کا غلام بنا دیا ہے ۔نتیجے میں ہم ان آلات کی فراہمی میں دولت کمانے کی مشین بن گئے ہیں ۔صبر و شکر ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔
صاف پانی مہیا کرانے کے بہانے اللہ کے مفت عطیہ کو مادیت پرستوں نے بیچناسکھایااور جدید قسم کے Water Filters نے ہماری قوت مدافعت کو کمزور کردیا ہے ۔
طرح طرح کے جدید گھریلو آسائش کے سامان نے غریب بچیوں کی شادیوں کو مشکل بنا دیا ہے ۔
زیادہ تر جدید سائنسی آلات کو ریموٹ کنٹرول سے کھول بند کرنے کی عادت نے ہمیں ضرورت سے زیادہ سہولت پسند اور لاپرواہ بنا دیا ہے ۔
روم ہیٹر، واٹر ہیٹر، ہاٹ ائر بلوور، گیزر، ائیر کنڈیشن جیسی سہولیات نے ہمیں مہلک بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔
جدید سہولیاتی آلات کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارا جسمانی اور ذہنی قوت برداشت کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔
14. 1973 میں Martin Cooper نے بنا تار کے بات کرنے والا پہلا موبائل فون انسانوں کی سہولت کے لئے بنایاجو غلط دماغ کی وجہ سے بڑھتے بڑھتےآج مصیبت بن گیا ہے ۔
موبائل تو موجودہ دور کا شاہکار ہے جو شروع میں زیادہ فائدہ مند تھا مگر اب زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ۔
آج کا موبائل جوایک اسمارٹ مشین کی طرح ہے، اپنے ساتھ انسانی بربادی کے تقریباً تمام ذرائع کو اپنے اندر سمیٹے ہوا ہے۔
جس اسمارٹ موبائل کو ہم لوگوں نے دوڑ کر گلے لگایا ہے وہ آج ہمارے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جس کو آپریشن کرکے بھی نکالنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔
ہماری یادداشت کا یہ حال ہے کہ ہمیں اپنا موبائل نمبر بھی یاد نہیں رہتا ہے اور ہمیں موبائل میں ڈونڈھ کر بتانا پڑتا ہے ۔
ڈبہ بند کھانے کی چیزیں اور بوتل بند پانی نے ہماری صحت کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔
آن لائن سامان منگوانے کے چلن نے محلے کے چھوٹے چھوٹے دکان داروں کے سامنے روزگار کے مسائل پیدا کر دئے ہیں ۔
یہ چند مثالیں تھیں جن کی روشنی میں ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بیجا طور پر در آئی سہولتوں پر ذرا رک کر غور کریں ۔گہرائی سے سوچنے پر پتہ چلتا ہے کہ بظاہر ان سہولیات نے وقتی طور پر جسمانی آرام ضرور پہنچایا لیکن ہمارے جسموں کو کمزور اور کھوکھلا ضرور کر دیا ہے ۔