حقانی القاسمی
یہ خوش آئند بات ہے کہ عورتوں نے سماج کے بنائے ہوئے مردانہ ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے روایتی نسائی کردار سے نہ صرف انحراف کیا ہے بلکہ معاشرتی حرکیات میں اپنی موجودگی کا اندراج بھی کرایا ہے ۔ایک زمانہ وہ تھا جب خواتین عرفی (Pseudonyms)یا متبادل نام سے شاعری، فکشن وغیرہ لکھاکرتی تھیں اور ان کی تخلیقات والدۂ فلاں یا ہمشیرۂ فلاں کے عنوان سے شائع ہوتی تھیںاور ایک عام تصور یہ تھا کہ خواتین کوقلم نہیں،کشیدہ کاری ،سلائی اور کڑھائی کی ضرورت ہے مگرحالات بدلے تو خواتین نے اپنی حقیقی شناخت کے ساتھ لکھنا شروع کیا مگران کے موضوعات محدود کردیے گئے اور ان میں کچھ ممنوعات بھی شامل تھیں ۔عورتیں کیا لکھیں کیانہ لکھیں ،یہ بھی ایک مسئلہ تھا۔ انہیں خانگی اور نجی مسائل میں قید کردیا گیا،مگر وقت نے کروٹ بدلی تو خواتین نہ صرف آرائش وزیبائش ،دسترخوان وپکوان، چوڑی چوٹی،پازیب پائل، لٹکن کنگن، گھنگھرو گھاگھرا، بندا بالی،پوری پلائو، چلپک چپاتی، کلچا قلیاسے باہر نکلیں بلکہ معاشرتی ، معاشی ، مذہبی اور دیگر مسائل پر لکھنے لگیںاوراس سلسلے میں زنانہ مجلات (تہذیب نسواں لاہور،خاتون علی گڑھ، معلم نسواں حیدرآباد،عصمت دہلی ،النساء حیدرآباد،وغیرہ وغیرہ)نے بڑی معاونت کی۔ان رسائل سے عورتوںکو ایک نیا اسپیس اور ایک نیاچنل ملا اور خواتین کے خیالات سے واقف ہونے کاایک ذریعہ میسر ہوا۔ان زنانہ رسائل نے خواتین کی تخلیقی اور تحریری صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کے ساتھ قومی اور عالمی حالات سے روشناس کرایا ۔ان رسائل کا مقصداصلاح خیالاتِ نسواں ،تعلیم و ترقی نسواں اورمستورات کے حقوق کا تحفظ تھا۔
ڈپٹی نذیر احمد کی ’مراء ۃ العروس‘ اورخواجہ الطاف حسین حالی کی ’مجالس النساء‘ سے عورتوں کو مزید تحریک وترغیب ملی اور حقوق نسواں کی آوازاوں نے عورتوں کے ذہنی افق کو وسیع کیا اور اس طرح تحریک نسواں سے خواتین کا موضوعاتی دائرہ وسیع ہوتا گیا اور عورتیں ان مسائل پر بھی مضامین لکھنے لگیں جو تعلیم وترقی نسواں اورمعاشرتی اصلاح وفلاح سے متعلق تھے۔ بہت ساری خواتین مضمون نگار منظر عام پر آئیں جنھوں نے اہم معاشرتی مسائل ، مثلاً کثیر زوجگی نظام،عقدبیوگان، جہیز، طلاق، کثرت اولاد، مطلقہ کی شادی، عورت کی دوسری شادی اور دیگر موضوعات پر لکھ کر معاشرہ، خاص طورپر طبقہ نسواں کی ذہن سازی کی۔نذر سجاد حیدر،صغری ہمایوں مرزا،طیبہ بلگرامی، جہاں بانو نقوی اور دیگر خواتین نے اصلاحی ،معاشرتی مضامین بھی لکھنے شروع کیے ۔عورتوں نے آپ بیتیاں بھی لکھیں جن میں محرومیوں اور مظالم کا دلدوز بیان تھا۔اس کے علاوہ عورتیں عالمی احوال وحوادث کے حوالے سے بھی لکھنے لگیں مگر اس کے باوجود ان کی تخلیقات کو Chick litکے زمرے میں رکھا گیااورانھیں Disregard کیا گیا۔یقینا صنفی تعصبات کی وجہ سے وہ تنقیدی ڈسکورس سے باہر رہیں اورمرد اساس معاشرے میں ان کی تحریروں کو ٹائم پاس یا شوقیہ قرار دے کر نظرانداز کیاگیا۔اس مخالف ماحول میں بھی بہت سی خواتین نے ہمت نہیں ہاری اور وہ صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسائل،کھیل ،سائنس اور دیگر موضوعات پر مضامین لکھنے لگیں ۔کیونکہ اگر خواتین نہ لکھتیں، تو شاید تحفظات اور تعصبات کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہوتا اور ان کے داخلی مسائل ومشاکل سے آگہی کی کوئی صورت بھی نہ نکل پاتی۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہر میدان میں خواتین کامرانی کی نئی تاریخ رقم کررہی ہیں۔ادب کی ہر صنف میں ان کی بہت بہتر نمائندگی ہے اور وہ اپنے جذبات وخیالات کا نہایت بے باکی کے ساتھ اظہار بھی کررہی ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے دنیا سے رشتہ بھی قائم کررہی ہیں۔اب وہ چادر اور چہادر دیواری میں قید نہیں ہیں، بلکہ اس سے باہر بھی ا ن کی ایک کائنات ہے اور خواتین اپنی تحریروں کے ذریعے لوح ادب پر اپنے نام ونشان بھی ثبت کررہی ہیں ۔نئے اور پرانے بہت سے نام ہیں کن کا ذکر کیا جائے اور کنھیں چھوڑا جائے بس یہی کہاجاسکتا ہے کہ ادب ہو یا صحافت، سائنس ہو یا سیاست ہر میدان میں خواتین بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
سیدہ تبسم منظور ناڈکر بھی اسی سلسلۂ ادب وصحافت سے جڑی ہوئی خاتون ہیں جنھوں نے اپنے پیش رو خواتین کے نقش قدم پر چل کر معاشرے کی رہنمائی کے لیے ان حقیقی مسائل پر مضامین تحریر کیے ہیں جو سماج کے شب وروز کا حصہ ہیں اور جن کے تعلق سے رہنمائی کی معاشرے کو شدید ضرورت ہے۔ گوکہ ممالک ، صنف ، عمر اور طبقے کے لحاظ سے مسائل کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔مگر کچھ مسائل ایسے ہیں جو مشترکہ ہیں ان میں غربت ، دہشت، نفرت،صنفی عدم مساوات، بھوک ، تعلیم، شادی،جہیز، بے روزگاری، نسلی امتیاز، بدعنوانی، تشدد، تعصب،غذائی اور آبی تحفظ، حفظان صحت، خاندانی تنائو، بے گھری، منشیات وغیرہ اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی لکھ رہی ہیں۔
سیدہ تبسم منظور ناڈکر نے بھی سماجی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے انہی مسائل اور موضوعات کو اپنا محور ومرکز بنایاہے جن کے ذریعے وہ سماج میں بیداری پیداکرسکیں۔وہ مختلف اخبارات ورسائل میں اصلاحی تربیتی، تعلیمی،اخلاقی نوعیت کے مضامین لکھتی رہی ہیں جن کا مقصدان مسائل کے تئیں معاشرے کو متحرک کرنااور افراد اخلاقی اقدارکے علاوہ اوامر ونواہی سے آگاہ کرنا ہے۔سیدہ تبسم چونکہ افسانہ نگار بھی ہیں، شاعرہ بھی اور صحافی بھی ،اس لیے انھیں بیشتر عائلی،قومی اورعالمی مسائل کا ادراک بھی ہے اور ان مسائل کے جملہ پہلوئوں پران کی نظر بھی ہے اور انہیں پیش کرنے کے لیے ان کے پاس پر اثر،سادہ اور سلیس زبان بھی ہے۔ موضوعات اورمسائل کی عمدہ پیش کش کی وجہ سے ان کی تحریروں کو مقبولیت بھی حاصل ہے۔ ’گلستان تبسم‘ اور’ درپن‘ کے عنوان سے ان کے مجموعۂ مضامین شائع ہوچکے ہیں ، ’مہندی لہو‘ کی اور’ لمحہ زندگی کے‘ ان کے افسانوںکے مجموعے ہیں۔بحیثیت افسانہ نگار ان کی ایک پہچان بن چکی ہے اور مضمون نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شہرت قومی سطح کی ہے۔’روشن راہیں‘ کے عنوان سے ان کے مضامین کا ایک مجموعہ زیر ترتیب ہے جس میں ان مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جو آج کے معاشرے میں بحث کاموضوع رہے ہیں ۔ ان مضامین میں وہ آج کی معاشرتی برائیوں،مکروہات زمانہ اور اخلاقی انحطاط کے حوالے سے بھی گفتگو کرتی ہیں ۔خواتین واطفال سے جڑے ہوئے جو مسئلے ہیں ان پربھی ہمدردانہ انداز میں مضامین لکھتی ہیں اور معاشرتی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔وہ لوگوںکو بتاتی ہیں کہ کس طرح معاشرے اور ماحول کو بہتر بنایا جائے ، حالات کو کیسے خوشگوار رکھا جائے؟ ازدواجی زندگی کو کیسے کامیاب کیا جائے، والدین کی نافرمانی سے کیا نقصانات ہیں،اس کے علاوہ رموز خانہ داری پر بھی روشنی ڈالتی رہتی ہیں اوروہ دیگر مسائل بھی ان کی تحریروں کا محور ہوتے ہیں جن سے خواتین اوربچوں کا سروکار ہوتا ہے ،ان کے حوالے سے وہ اپنے تجربات ، مشاہدات اور مطالعات کی روشنی میں اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کرتی ہیں۔آداب معاشرت، آداب زندگی سے بھی آگاہ کرتی ہیں یعنی وہ تمام مسائل ان کی تحریروں کے بین السطور میں ہوتے ہیں جو آج کے معاشرے کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔مولانااشرف علی تھانوی کی کتاب’ بہشتی زیور‘ نے عورتوں کو جو آداب زندگی اور ہوم سائنس کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔شاہ جہاں صاحبہ بیگم آف بھوپال نے تہذیب نسواں و تربیت الانسان سے عورتوں کی جو ترتبیت کی ہے، صغری ہمایوں مرز ا نے سرگذشت ہاجرہ کے ذریعے عورتوں کو جو پیغام دیا ہے، جہاں بانو نقوی نے رموز خانہ داری اور فتراک،شمیم علیم نے عکس کائنات، ثریا امین مرز ا نے ’سفینۂ حیات’فریدہ راج نے’ زاویے زندگی کے‘اور دیگر خواتین قلمکار راسیہ نعیم ہاشمی، سفینہ عرفات فاطمہ،رفیعہ نوشین،سیدہ نسیم سلطانہ اور مختلف اخبارات کی کالم نگاروں نے خواتین کی جو ذہن سازی کی ہے، تبسم ناڈکر نے اسی سلسلے کو بہت ہی خوبصورتی سے آگے بڑھایا ہے اور مختلف رسائل میں ان بنیادی مسائل پر اپنی تحریری توانائی صرف کی ہے جن کی ضرورت ہماری معاشرت کو ہے۔
انھوں نے بیوائوں کی زندگی، ماں اور بیٹی کے رشتے، منافقت، غیبت، والدین کی نافرمانی اور دیگر دیگر چھوٹے بڑے مسائل پر بہت اچھے انداز میں لکھا ہے ۔آج کے دور کے مسائل مثلاً شادیاں کیو ں ناکام ہوجاتی ہیں، یا ٹک ٹاک، آن لائن رشتے ، اخلاق وکردار اور دیگردلچسپی کے موضوعات پر بھی مضامین لکھے ہیں۔یہ تمام موضوعات بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ آج ہمارا معاشرہ جس لاسمتی کا شکار ہے اس میں ایک صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔مجھے امید ہے کہ سیدہ منظور تبسم ناڈکر کی یہ تحریریں ہر حلقے میں قبولیت کی نظر سے دیکھی جائیں گی اور جو ان مسائل سے دوچار ہیں ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔