تعلیم کے چراغ جلائیں

از قلم:۔ مدثر احمد شیموگہ
9986437327

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہے۔ ایک مہذب، خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جس کے نوجوان تعلیم یافتہ ہوں اور ان کے خوابوں کو پروان چڑھانے کے مواقع میسر ہوں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بے پناہ ذہین اور محنتی طلباء موجود ہیں، وہیں غربت اور وسائل کی کمی ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ایسے میں معاشرے کے مالدار طبقے پر یہ اخلاقی اور سماجی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان طلباء کی مدد کے لئے آگے آئیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں ذہین طلباء صرف اس وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں کہ ان کے پاس تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے وسائل نہیں ہوتے۔ اسکولوں کی فیس، کتابوں کے اخراجات، یونیفارم، اور دیگر تعلیمی ضروریات ان طلباء کے لئے بوجھ بن جاتی ہیں۔ یہ نہ صرف ان بچوں کے مستقبل کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرے کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔معاشرے کے مالدار اور صاحبِ حیثیت افراد کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس یہ سنہری موقع موجود ہے کہ وہ ان طلباء کے تعلیمی سفر کو سہارا دیں۔ اسکالرشپ، تعلیمی فنڈز، اور تعلیمی اداروں کی معاونت کے ذریعے وہ طلباء کو نہ صرف تعلیم کا حق دے سکتے ہیں بلکہ ایک بہتر، ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

ہمارے دینِ اسلام میں بھی علم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کو عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” سماج کے صاحبِ حیثیت افراد اگر اپنی دولت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی تعلیمی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، تو یہ ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا سبب بن سکتا ہے۔بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں مخیر حضرات اور صنعتکار تعلیمی ادارے بناتے ہیں، اسکالرشپ فراہم کرتے ہیں، اور تعلیمی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کئی مالدار افراد اور تنظیمیں تعلیمی میدان میں کام کر رہی ہیں، مگر یہ کافی نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت شخص اپنی سماجی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔اگر ہم آج کے طلباء کی مدد کریں گے تو کل یہی طلباء ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ ڈاکٹر، انجینئر، استاد، سائنسدان، اور معاشرے کے معمار بنیں گے۔ ان کی کامیابی نہ صرف ان کے خاندانوں کو غربت سے نکالے گی بلکہ پورے معاشرے کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔اختتامیہ:معاشرے کے مالدار طبقے کو اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی دولت کا صحیح استعمال وہ ہے جس سے معاشرے کے نادار طلباء کے مستقبل کو سنوارا جا سکے۔ اگر آج ہم نے تعلیم کے ان چراغوں کو بجھنے دیا تو کل ہمیں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہی وقت ہے کہ ہم سب مل کر تعلیم کے فروغ کے لئے کوشش کریں اور آنے والی نسلوں کو ایک روشن مستقبل فراہم کریں۔

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *