امیر معاویہ قاسمی
:ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ
ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کے مطابق دنیا میں تقریباً چار سو ایسے علاقے ہیں، جہاں شدید آبی مسائل ہیں اور ان علاقوں میں دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ یعنی ڈھائی ارب سے زائد لوگ رہتے ہیں ؛ ان میں بھی بعض علاقے وہ ہیں، جہاں ’انتہائی شدید آبی مسائل‘ کا سامنا ہے اور ان خطوں میں تقریباً پونے دو ارب افراد رہ رہے ہیں، جو انسانی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے؛ ڈبلیو آر آئی نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ دنیا شدید آبی بحران کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس جنگ کا مرکزی خطہ مشرق وسطی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ خطے سب سے زیادہ آبی مسائل سے دوچار ہیں ۔
:اقوام متحدہ کی رپورٹ
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق آبی مسائل کے لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ کے درجن بھر سے زائد ممالک مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں، ان ممالک میں قطر پہلے ،اسرائیل دوسرے، لبنان تیسرے، اردن چوتھے، ایران پانچویں ، لیبیا چھٹے ، کویت ساتویں ، سعودی عرب آٹھویں نمبر پر ہے، اس فہرست میں پاکستان بارہویں اور ہمارا ملک بھارت تیرہویں نمبر پر ہے ؛ہمارے ملک کی نو ریاستیں “انتہائی شدید آبی مسائل” سے دوچار ہیں اور یہ صورت مزید بھیانک ہونے والی ہے؛ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے عشروں میں بھارت کو تاریخ میں پانی کے سب سے طویل بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور ملک کی آدھی آبادی کو پانی کی سخت قلت کا سامنا ہو گا، واضح ہو کہ یہ اعدادوشمار دو سال قبل کے ہیں ۔
:شدید موسمیاتی تبدیلی
دنیا بھر میں پانی کے شدید بحران کے وجوہات کیا ہیں ؟ اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کے مطابق دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے زیراثر ہے اور یہی موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے شدید بحران کا باعث ہیں، نیز غیر متوقع بارش اور بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران پیدا ہو رہا ہے؛آبادی میں اضافہ اور آبی آلودگی کو بھی آبی بحران کا سبب قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کے علاوہ اس کا ایک سبب پانی کے استعمال میں بے اعتدالی ہے، اسلامی نقطئہ نظر سے یہ سب سے اہم وجہ ہے؛ اس لئے اسلام میں پانی کے استعمال کے محفوظ طریقوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہے، اگر اس رہنمائی کو سامنے رکھ کر پانی کا استعمال کیا جائے تو آبی بحران سے بچا جا سکتا ہے ۔
:انسان مخدومِ کائنات
اللہ رب العزت نے انسان کو مخدومِ کائنات بنایا ہے اور دنیا کی تمام تر چیزوں کو انسان کا خادم بنایا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ”اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں اور جہازوں کو تمہارے زیر فرمان کیا، تاکہ دریا اور سمندر میں اس کے حکم سے چلیں اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا“ (سورہ ابراہیم ، آیت نمبر :٣٢-٣٣)؛اسی طرح محبوبِ باری تعالیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ :”یہ دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور تمہیں آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے“(بیہقی فی شعب الإيمان) ۔
:پانی انسان کی اہم ضرورت
تو گویا کائنات میں موجود تمام وسائل انسان کے لیے ہیں،ان وسائل میں ایک اہم وسیلہ پانی ہے، یہ انسان کی اہم بنیادی ضرورت ہے؛ اس کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے؟ اس کو بیان کرنے کے لیے کسی عقلی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ قرآن کریم کا یہ ارشاد اس کی اہمیت کو بتلانے کے لئے کافی ہے کہ :”اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا ہے“(سورہ انبیاء، آیت نمبر :٢١)؛اسی پانی کے لیے آج دنیا بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور اس کے مجرم ہم خود ہیں کہ ہم نے اس کے استعمال میں بے اعتدالیاں برتیں اور بیجا اسراف کرکے اس کی ناقدری کی، جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ بوند بوند پانی کو ترس رہا ہے ۔
:دنیاوی وسائل
اسلام کا موقف ہے کہ دنیاوی وسائل اگرچہ انسان کے لئے ہیں مگر انسان ان کے استعمال میں اس قدر آزاد نہیں ہیں کہ جیسے چاہے استعمال کرے تا آں کہ اسراف کی حد میں داخل ہوجائے بلکہ اسلام نے ان وسائل کے استعمال کا ادب بھی تلقین و تعلیم فرمایا ہےاور وہ ہے اعتدال،ان کے برتنے میں اعتدال سے باہر نکلنا درحقیقت فساد اور تخریب کی حدود میں داخل ہوجانے کے مترادف ہوگا؛ چنانچہ رب العالمين نے تمام چیزوں کے استعمال میں اعتدال کا حکم فرمایا ہے، بالخصوص کھانے پینے کی چیزوں میں، فرمایا کہ :”اللہ کے رزق میں سے کھاؤ، پیو، اور زمین میں فساد نہ کرو“(سورہ بقرہ، آیت نمبر :٦٠)؛ ایک اور جگہ فرمایا کہ :”اور خوب کھاؤ، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو “ (سورہ اعراف، آیت نمبر:٣١)۔
:سامانِ سہولیات کی فراوانی
ان آیات میں پانی کے استعمال میں اسراف سے منع کیا گیا ہے اور اسے فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے؛ سامانِ سہولیات کی فراوانی نے انسان کی زندگی میں جس قدر سہولت فراہم کی، اسی قدر نقصان بھی پہنچائے ہیں ، نل کی ایجاد نے پانی کے استعمال کو بہت آسان کر دیا مگر اس میں پانی کا ضیاع بھی بہت ہے اور ہم اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ ہم سب شدید آبی مسائل سے دوچار ہیں ؛ اس لئے پانی کے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے فی الفور اقدامات کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے اولِ وہلہ میں پانی کے ایسے طریقئہ استعمال کو اپنانا چاہیے، جس میں کم سے کم پانی صرف ہو اور اسراف سے بچا جا سکے ورنہ دنیا کو اس سے بھی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
:احادیث شریفہ
اس حوالے سے احادیث شریفہ میں بھی تفصیل کے ساتھ احکامات ملتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار آپﷺکا ایسے مقام سے گزر ہوا، جہاں حضرت سعد رضی اللہ عنہ وضو فرمارہے تھے؛ انہیں دیکھ کر آپﷺنے فرمایا کہ یہ اسراف کیسا؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے ؟ اس پر آپﷺنے یہ قیمتی جملہ ارشاد فرمایا کہ :”نعم وان کنت علی نھر جار ہاں! خواہ تم کسی بہتی نہر کے کنارے وضو کررہے ہو“(ابن ماجہ، حدیث نمبر :٤٢٥)؛ غور کیجئے کہ آپﷺنے پانی کے تحفظ اور اس کے غیر ضروری استعمال کے سلسلے میں کس قدر حساسیت کا مظاہرہ فرمایا ۔
:توجہ طلب امر
توجہ طلب امر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بہتے دریا کے کنارے وضو کرتے ہوئے تین کے بجائے چار یا پانچ بار ہاتھ،پیر دھوبھی لے تو کیا مضائقہ ہے؟پانی تو لوٹ کر واپس وہیں دریا میں ہی گرے گا مگر نبی رحمتﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی تربیت فرمارہے تھے؛ کیوں کہ اگر کسی شخص کو بہتے دریا پر وضو کرتے ہوئے اسراف کی عادت پڑ جائے تو کم پانی کی موجودگی میں بھی اس سے عادتاًاسراف ہی ہوگا،جو انسانیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا؛ اس لیے پہلے مرحلہ میں ہی پانی کے فضول خرچی سے روک دیا جائے، یہ ہے اسلام اور پیغمبرِ اسلام علیہ السلام کی تعلیمات ، جس میں دنیا اور انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت ہے ۔
:پانی کا تحفظ
پانی کے تحفظ کے سلسلے میں رسول اکرمﷺ نے ایک اور پہلو کی جانب توجہ دلائی، ارشاد فرمایا کہ :”لا یبولن احدکم فی الماء الدائم الذی لا یجری، ثم یغتسل بہ کہ تم میں سے کوئی شخص ایسے ٹھہرے پانی میں ہر گز پیشاب نہ کرے، جو جاری نہ ہو، پھر اسی سے وہ غسل کرے “(بخاری شریف، حدیث نمبر :٢٣٩)؛ دیکھئے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت آبی آلودگی سے منع کیا، جب دنیا اس سے غافل تھی اور اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آبی آلودگی ایک دن آبی بحران کا سبب بنے گا ۔
:انسان کی عام ضرورت
اسی طرح اسلام نے انسان کی عام ضرورت کی چیزوں کو عام ہی رکھا، ان پر کسی ایک فرد یا جماعت کی اجارہ داری سے منع فرمایا، پیغمبرِ آخر الزماں ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” المسلمون شرکاء فی ثلاث، فی الماء والکلا والنار کہ تین چیزوں میں تمام مسلمان شریک ہیں، پانی، گھاس اور آگ میں“ (أبو داؤد، حديث نمبر :٣٤٧٧)؛حدیث کے رو سے پانی مشترکہ متاع ہے،اسے کسی طبقے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا ہے، مگر ہم نے اللہ کی اس عام نعمت کو بھی خاص کر دیا کہ ہر ملک آبی ذخائر کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے اور باقی دنیا کو محروم رکھنا چاہتا ہے؛ چنانچہ اللہ کے نظام میں انسان کی دخل اندازی نے نوبت یہاں تک پہنچا دیا کہ آبی ذخائر خشک ہو رہے ہیں یا سطحِ آب تیزی سے گھٹ رہا ہے ۔
:سب سے اہم بات
سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ جس نعمت پر جتنا شکر ادا کیا جائے گا، اللہ رب العزت اس میں اتنا ہی اضافہ فرمائے گا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے :اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے(سورہ ابراہیم، آیت نمبر ٧)؛ یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سرکشی نہ کروگے تو ہم اس میں مزید اضافہ فرمائیں گے؛ اور اگر ہماری نعمت کا صحیح استعمال نہیں کروگے اور ہمارے احکام کی نافرمانی کروگے تو بطورِ عذاب کے وہ نعمت بھی چھین لیں گے۔
:آبی مسائل کا حل
یہ تفصیلات بتلاتے ہیں کہ شدید آبی مسائل کا حل اور تحفظ صرف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہیں،پس واقعی اگر دنیا چاہتی ہے کہ پانی کے بحران سے باہر نکلے تو پانی کے استعمال میں احتیاط برتے، فضول خرچی سے اجتناب کرے، آبی آلودگی پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈے اور صرف اپنے لیے ذخیرہ اندوزی کے بجائے تمام انسانیت کی فکر کرے، بصورتِ دیگر اس سے بھی زیادہ خراب صورتحال بھگتنے کے لئے تیار رہے؛ اللہ تعالیٰ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجئے! کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے پینے کا پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے چشمے کا پانی لائے؟ (سورہ ملک، آیت نمبر :٣٠)۔