تحریر:افشاں احمد
لڑکی پرایا دھن ہے” اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہم سب اس جملہ سے واقف تو ہوں گے۔ اور یہ ہمارے لیے قابل اعتراض بھی نہیں۔ ہو بھی کیوں؟ نفع نقصان، بھاؤ تاؤ کرنے والی تاجرانہ ذہنیت کیلئے یہ ایک پیشہ وارانہ اصطلاح ہے جس کے استعمال میں ہم زرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ آج بھی ہمارے ہاں لڑکی کو پروڈکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اسکا خریدار اسے مسترد یا منتخب کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور اکثریت کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم ان سب رویوں اور رواجوں کو نارملائز کر چکے ہیں۔ رشتہ کیلئے آنے والوں کے سامنے ہر لڑکی سج سنور کے، سلیقہ شعار بن کر، ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے پیش ہوتی ہے پھر اسکو سر سے پاؤں تک سکین کیا جاتا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ کام خواتین ہی سرانجام دیتی ہیں۔ ہم نے ان روایات کو اس قدر نارمل کر دیا ہے کہ کسی کو انہیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ پھر اسے معاشرتی روایات کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ اگر وہ ان معیارات پر پورا اترے تو اس پر سیلکٹڈ کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے. اور اگر ان معیارات پر پورا نہ اتر سکے تو اسے اس وقت تک چائے پیش کرنے کا یہ عمل دہرانا ہوتا ہے جب تک اسے منتخب نہ کر لیا جائے۔
مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی انسان ارادی طور پر ان روایات کی چکی میں پسنا پسند کرے گا ۔تو ایک لڑکی کیسے ان فرسودہ روایات میں سے بآسانی گزر سکتی ہے۔ ہر انسان آزادی اور خودمختاری کی چاہ کرتا ہے ۔ہر انسان آزادی کے ساتھ اڑنا چاہتا ہے، جینا چاہتا ہے۔ لیکن ہم کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ ہم نے عورت کو انسان کی نظر سے دیکھا ہی نہیں۔ تو اسکی آزادی و خودمختاری کو کیسے مان سکتے ہیں۔ اسے جانچنے کے پیمانے اسکی شکل و صورت ، اسکی فرمانبرداری و تابعداری تک محدود ہیں، اسی لیے ہم اسکی خودمختاری کو جرم سمجھتے ہیں۔ بالخصوص اسکی معاشی خودمختاری کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ وہ مرد کے رحم و کرم پر رہے۔ اس طرح یہ معاشرہ اسکی آزادی سلب کرتا ہے۔ اور اس استحصال کو ایسے گلیمرائز کیا جاتا ہے کہ بعض خواتین تو اسے اپنا تخفظ سمجھتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر عورت کی معاشی خودمختاری کے حق میں لکھنے کی جسارت کی تو اسکے جواب میں کسی نے کہا کہ عورت کو اگر معاشی خودمختاری دی جائے گی تو وہ فرمانبردار نہیں رہے گی اور مرد کے مقابلے میں آ کھڑی ہو گی ۔ لیکن مجھے اس جواب پر بالکل خیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں نے بھی یہ سن رکھا ہے کہ ” مرد عورت کا حاکم ہے” تو پھر عورت ہوتی کون ہے برابری کا یا خودمختاری کا مطالبہ کرنے والی!
ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے شائع کردہ جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ 2020 کے مطابق پاکستان 153 میں سے 151 نمبر پر ہے جس میں وہ صرف عراق اور یمن کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف 32.7 فیصد خواتین کو معاشی مواقع میسر ہیں۔ تو اندازہ کیجئے جہاں ایسی صورتحال ہو گی وہاں سماجی و معاشی استحکام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی لڑکی کیرئیر بنانے کی خواہش رکھتی ہے یا سماج میں آگے بڑھنا چاہتی ہے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ ” شادی کے بعد جو مرضی کرنا”. یہ اسے بے وقوف بنانے کا بڑا خوبصورت اور آزمودہ طریقہ ہے۔ کیونکہ آپ سب بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ اس کو شادی کے بعد کونسی آزادی میسر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اسکی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں سو اپنے لیے کچھ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں “کہ جاگیردارانہ معاشرہ میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے جہاں اسکی آزادی مرد کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروغ دیا جائے جن کے زریعے عورت کو مرد کا تابع اور فرمانبردار رکھا جائے۔ اور اسکی آزادی کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں “
میں سمجھتی ہوں کہ معاشی وسماجی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ان فرسودہ روایات سے نکل کر عورت کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم۔ لیکن جس معاشرے کے علماء ممبر پر بیٹھ کر یہ درس دیں کہ بیٹی کی تعلیم پر اسکی شادی کو ترجیح دی جائے، جس معاشرے میں عورت کا اپنے حق کا مطالبہ بے حیائی تصور کیا جائے وہاں ان روایات کا بدلنا آسان دکھائی نہیں دیتا لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔ اس کے لیے عورت کو اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنی ہو گی۔ ایک ماں کی صورت میں اسے اپنی بیٹیوں کو خودمختار بنانا ہو گا۔ جس دن ایک عورت نے دوسری عورت کیلئے کھڑے ہونے کی ٹھان لی۔ جس دن وہ اپنی آنکھوں کے سامنے سے مرد اور معاشرہ کا خوف ہٹانے میں کامیاب ہو گئ اس دن یہ روایات ضرور بدلیں گی۔ اس دن عورت کو انسان سمجھا جائے گا اور اس کی ہر طرح کی سماجی آزادی کو اسکا حق سمجھا جائے گا۔ آخر میں ان اشعار (بشکریہ شاہ فرحان) کے ساتھ میں اپنا قلم رکھنا چاہوں گی۔
بےہنر رہے عورت، خامشی کو اپنائے
دونوں ہی خداؤں کا قافیہ پرانا ہے
طےشدہ روایت کی پیروی کئے جانا
یقین کے بِماروں کا واہمہ پرانا ہے