ام سلمیٰ
دنیا کی سب سے حسین اور بے غرض محبت ماں کی محبت ہے۔ یہ رشتہ ایسا ہے جو نہ وقت کے بدلنے سے کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی حالات کی سختیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ ماں کی عظمت اور محبت کو لفظوں میں مکمل طور پر بیان کرنا ناممکن ہے۔ وہی ہستی ہے جو اپنی اولاد کے لیے زندگی کی ہر مشکل برداشت کرتی ہے لیکن اولاد کو تکلیف میں دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔
ماں کی محبت ایسی دولت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے ماں ہی ہے جو اسے اپنی آغوش میں لے کر تحفظ اور سکون دیتی ہے۔ بچہ بھوکا ہو تو ماں اپنی بھوک بھول جاتی ہے، بچہ بیمار ہو تو ماں ساری رات جاگ کر اس کی تیمار داری کرتی ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر ماں اپنی اولاد کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتی ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور راحتوں کو چھوڑ کر صرف اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے۔ یہی قربانی اور ایثار ماں کے رشتے کو سب سے بلند اور عظیم بنا دیتا ہے۔ماں صرف جسمانی پرورش نہیں کرتی بلکہ روحانی اور اخلاقی تربیت کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بچے کی زبان، سوچ اور عادات کی تعمیر ماں ہی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے۔ایک نیک ماں اپنے بچوں کو اچھے اخلاق، محبت، خدمت اور صبر کا سبق دیتی ہے۔ اگر ماں کی تربیت اچھی ہو تو نسلیں سنور جاتی ہیں اور اگر تربیت میں کمی رہ جائے تو پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے ماں کو معاشرے کی اصل معمار کہا جاتا ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے عظیم انسانوں کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماں کی تربیت اور دعائیں شامل رہی ہیں۔ چاہے وہ حکمران ہوں، علماء ہوں، یا مصلحین، سب کی کامیابی کی بنیاد ایک نیک اور عظیم ماں کی تربیت ہی ہے۔اسلامی تاریخ میں بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں ماں نے اپنے بیٹے کو خدمتِ دین کے لیے تیار کیا۔ امام بخاریؒ جیسے عظیم محدث اپنی والدہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔ اسی طرح بے شمار علماء اور قائدین کی عظمت کے پیچھے ایک ماں کی محنت اور تربیت کارفرما رہی ہے۔
ماں کی دعائیں اولاد کے لیے سب سے بڑی دولت ہیں۔ ایک سچی ماں کی دعا زندگی کی مشکلات کو آسان اور کامیابی کے راستے کو ہموار کر دیتی ہے۔ تاریخ اور تجربہ دونوں گواہ ہیں کہ ماں کی دعا اولاد کو وہ مقام دلا سکتی ہے جو دنیا کی کوئی طاقت نہیں دلا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے:”ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔