🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

وسیم احمد
بظاہر روزہ ایک مشکل کام ہے مگر اس سے ایک ایسی روحانی تسکین میسر ہوتی ہے، جس کو ہزاروں میل کا سفر اور زر و زمین قربان کرکے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ مشہور فلسفی و مصنف ڈاکٹر مائلس منرو Dr. Myles Munroe کہتے ہیں کہ ’’ روزہ شعوری طور پر کھانے پینے کی لذت سے کچھ وقت کے لیے پرہیز کرنے کا ایسا فیصلہ ہے جس سے اعلیٰ روحانی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ روزہ مومن کی زندگی کا فطری حصہ ہے۔ جس طرح ہم مذہبی کتاب (قرآن) کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھنے کی عادت ڈالتے ہیں، اسی طرح ہمیں روزے کی عادت بھی اپنانی چاہیے۔‘‘
روزہ سے ایسی روحانیت نصیب ہوتی ہے جو انسان کو رب کی قربت کی لذت سے آشنا کراتی ہے۔ یہ قربت اس کی عبادتوں اور دعاؤں میں قبولیت کے امکانات کو اس حد تک بڑھا دیتی ہے کہ گویا اس کی دعاؤں اور عبادتوں نے شرف قبولیت پالیں۔ دراصل روزہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے ذہنی انتشار کو سمیٹ کر اس میں ارتکاز کی کیفیت پیدا کرتا ہے جس سے خدا تک رسائی کا راستہ آسان اور جنت کا حصول سہل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان روزے کی حالت میں روحانیت کے جتنے بلند مراتب طے کر سکتا ہے وہ غیر رمضان میں ممکن نہیں ہے۔
کیونکہ اس حالت میں انسان کھانے، پینے و شہوانی لذتوں سے پرہیز کرتا ہے ۔ یہ تینوں ہی چیزیں انسان کے نزدیک بہت ہی مرغوب ہیں، نوع انسان کی خواہشات اسی کے ارد گرد گھومتی ہیں، جب ایک آدمی ان مرغوبات کو چھوڑ دیتا ہے تو قدرتی طور پر اس کا عمل دنیا سے بے نیازی اور آخرت کی جستجو کا مظہر بن جاتا ہے۔ خدا کی تلاش میں روزہ دار کا ایثار ، غیر منقسم اور کامل انہماکیت کی کیفیت سے سرشار ہوکر اس کے مراتب کو بلندی تک پہنچنے کے سفر کو تیز رفتار بنا دیتا ہے ۔ جب ہم روزہ رکھتے ہیں اور مخصوص اوقات کے لیے اپنی لذتوں کو تاراج کرتے ہیں ، یہاں تک کہ دوست و احباب سے گفتگو کم ، نا شائستہ لفظوں سے اجتناب اور تضیع اوقات سے پرہیز کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے دنیاوی فوائد، نفسانی خواہشات ، کاروبار کی مصروفیتوں پر خدا کی رضا کو مقدم رکھا اور اسی کی رضا کی خاطر ہم نے اپنی تمام لذتوں کو ترک کیا اور اتنی مشقتیں کیں۔ چونکہ یہ عمل خالص رضائے الٰہی کے لیے ہوتا ہے ۔ اس لیے اللہ نے فرمایا ’’ روزہ میرے لیے ہے اور اس کابدلہ میں خود دوں گا‘‘۔ یعنی روزہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ریا، دکھاوا اور دنیاوی مفاد کی آمیزش بالکل نہیں ہے۔ یہ عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے ہی انجام دیا گیا ہے اس لیے اس کا بدلہ بھی خود اس ( اللہ ) کے ہاتھوں سے ملے گا، اور جب اللہ کسی کو بدلہ دیتا ہے تو وہ اپنی شایان شان ہی دیتا ہے جتنا کوئی اور نہیں دے سکتا۔
قرآن میں جہاں جہاں روزہ کا ذکر ہوا ہے، بیشتر جگہوں پرساتھ میں نماز کا بھی ذکر ہے۔ دونوں میں بڑی لطیف ہم آہنگیت پائی جاتی ہے۔ روزہ ہمارے اندر روحانیت کو جِلا بخشتا ہے جبکہ نماز رب سے ہم کلام ہونے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے دعا مانگنے کا ماحول بناتی ہے۔ نماز ہمیں انفرادی طور پر اللہ سے ہم کلام ہوکر اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع فراہم کرتی ہے جبکہ روزہ اس میں روحانیت کا نور بھرتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو روزے کے ساتھ نماز کا ذکر کر کے ہمیں خدا سے ہم کلام ہو نے اور مقاصد کی تکمیل کا ایک بہترین موقع مرہون کیا گیا ہے۔ روزہ کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے دوسروں کی تکلیف سمجھنے اور غریبوں و لاچاروں کے درد کو محسوس کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایک آدمی نے بھوک کی شدت کو کبھی نہیں آزمایا، اس نے یہ بھی نہیں جانا کہ پیاس کی شدت کیا ہوتی ہے۔ روزہ ایک روزہ دار کے دل میں بھوکوں ، پیاسوں اور بے سہاروں کے لیے درد پیدا کرتا ہے ۔ یعنی روزہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ڈاکٹر مائلس منرو کہتے ہیں کہ ’’ روزہ میں آپ صرف کھانا نہیں چھوڑتے ہیں بلکہ اس حالت میں آپ کو خدا کی تلاش کے ساتھ ساتھ بندوں کی خوشنودی کی تلاش بھی جاری رہتی ہے۔‘‘ کیونکہ اسی سے آپ نے کسی فاقہ کش کے درد کو سمجھا اور کسی پیاسے کی تکلیف کو محسوس کیا اور جانا کہ بھوک اور پیاس کی اذیت کیا ہوتی ہے۔ یہ احساس آپ کو ان کی مدد کرنے پر اکسائے گا۔ روزہ کا مقصد وزن کم کرنا یا امراض سے خود کو محفوظ رکھنا نہیں ہے۔ روزہ ایک مشق ہے جو بنیادی طور پر روحانی مقاصد کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ اگر آپ کے روزہ رکھنے کا مقصد فٹ اور صحت مند رہنا ہے تو آپ روزہ نہیں رکھ رہے ہیں بلکہ ایک مخصوص طرح کی ورزش کر رہے ہیں جو روزے کا مطلوب نہیں ہے۔ روزہ ہمیں روحانیت کی دنیا میں لے جانے کا ایک راستہ ہے نہ کہ جسمانی ساخت کو بہتر اور حسین بنانے کا ذریعہ ۔ تاہم روزے سے حاصل ہونے والے جسمانی فائدوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر یہ فروعی اور اضافی فائدے ہیں۔ یہ فائدے روحانیت سے حاصل ہونے والے فائدوں سے بہت کم ہے۔
قرآن میں روزے کے ساتھ نماز کا ذکر خاص طور پر آیا ہے ، لہٰذا روزے کے ساتھ نماز کی پابندی لازمی طور پر ہونی چاہئے۔ نماز کے بغیر روزہ رکھنا بھوک ہڑتال جیسا ہے۔اس سے کچھ ظاہری فائدے تو مل سکتے ہیں ، مگر حقیقتاً روزے کی معنویت سے محرومی ملے گی ۔ اس معنویت کا حصول تب ہی ہوگا جب آپ اس کو نماز سے مزین کریں گے۔ روزے کی روحانیت میں اضافہ کے لیے نماز کے ساتھ تلاوت قرآن کا بھی اہتمام اعلیٰ پیمانے پر ہونا چاہئے۔ آپ جتنی تلاوت کریں گے روحانی جِلا کے ساتھ ساتھ دماغی قوت و صلاحیتوں میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اور تلاوت کے نتیجے میں قدرتی طور پر قرآنی الفاظ و معانی کا ایک ذخیرہ آپ کے دماغ میں محفوظ ہو جائے گا۔ چونکہ روزے کا مقصد ہی ہے رضائے الٰہی ، لہٰذا اللہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کلام کیجئے یعنی قرآن پڑھئے۔ یہ آپ کو رب سے بہت قریب کرے گا۔ روزہ ہمیں اپنی روحانی استعداد بڑھانے کے قابل بناتا ہے اور جسم کو روح کے تابع کرکے نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ جب تک ہماری روح کا کنٹرول ہمارے جسم پر ہوتا ہے ، ہم عبادتوں میں نشاط و مسرت محسوس کرتے ہیں مگر جب جسم، روح پر غالب آجاتا ہے تو اس وقت عبادتوں میں کوتاہی ہونے لگتی ہے۔اس کوتاہی سے بچنے کے لیے روزہ ایک بہترین ہتھیار ہے۔
روزہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کے دوران روح، جسم پر اپنا دبدبہ اور کنٹرول رکھتی ہے اور روزہ دار کو شیطانی وسوسوں سے دور، عبادتوں میں منہمک رہنے کی ترغیب دیتی ہے جس کی وجہ سے انسان رب کی زیادہ اطاعت کرنا شروع کردیتا ہے۔ روزہ انسان کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وہ ہر کام روحانی اشارے کے مطابق کرنے لگتا ہے اور شریعت مطہرہ کے ہر حکم پر عمل کرنا زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں سکون و اطمینان آجاتا ہے ، دنیاوی خواہشات کا طوفان تھم جاتا ہے ، نفس امارہ کی تیزی و تندی ختم ہوجاتی ہے اور وہ بتدریج خدا کا پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ’’ روزہ جہنم سے بچنے کے لیے ڈھال ہے ‘‘ یعنی روزہ کے ذریعے انسان ، شیطانی چالوں کو شکست دے کر اپنی آخرت کو حسین بنا لیتا ہے۔