’’ڈر ڈر کر جئے بھی تو کیا جیئے‘‘

🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

چاند اور تارے

سیما شکور، حیدر آباد

’’ڈر‘‘ ہماری کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈر کی وجہ سے ہم ہر وقت اسی سوچ میں اور اسی فکر میں رہتے ہیں کہ ہم نے یہ قدم اٹھایا تو کیا ہوگا۔ جبکہ ہر کامیابی کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ جب تک ہم غلطی نہیں کریں گے تو سیکھیں گے کیسے۔ اس لیے بلا کسی خوف کے قدم بڑھاتے جائیے۔ گِر کر اٹھنا اور اٹھ کر گِرنا ، یہی تو زندگی ہے۔ وہ لوگ جو ہمت سے کام لیتے ہیں اور اپنے ڈر پر قابو پالیتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ لوگ ڈر کی وجہ سے حق بات بھی نہیں کہتے وہ ڈر کو اپنے اوپر حاوی کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگو ں کو تاریخ یاد رکھتی ہے جو باطل سے ٹکراتے ہیں ۔ بے خوف و خطر ہو کر ، بس آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں انہیں نہ ہی اپنے کسی نقصان کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی مستقبل کے لیے وہ کبھی فکر مند ہوتے ہیں۔ وہ حق کی خاطر اپنی جان بھی دے دیتے ہیں۔ یاد رکھیئے لوگوں سے ڈرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ سے کبھی نہیں ڈرتے اور جو صرف اللہ سے ڈرتے ہیں وہ پھر کسی سے نہیں ڈرتے۔ ڈر ہماری طاقت اور ہمت کو گھٹادیتا ہے۔ ڈرنا ہے تو اس وقت سے ڈریئے جب کسی کے ہاتھ آپ کے لیے بدعا کی خاطر اٹھ جائیں، ڈرنا ہے تو اس وقت سے ڈریئے جب آپ کے اعمال اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا سبب بن جائیں۔ احساسِ کمتری میں مبتلا لوگ بھی جلد ہی ڈر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگ ساری زندگی بس سوچتے سوچتے ہی گزار دیتے ہیں اور پہلا قدم نہیں اٹھاتے یوں ان کی زندگی ناکامی کی نظر ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ والدین کے رویے اور لاپرواہی کی وجہ سے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

والدین بچوں میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں والدین کا ہاتھ ہوتا ہے اور والدین کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ اگر آج بچوں کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو پھر کبھی اس کا مداوا نہ ہو پائے گا۔ مضبوط قوتِ ارادی اور منظم سوچ کے حامل افراد ہی نڈر اور بے خوف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بلا کسی خوف و خطر کے باطل سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں جبکہ منافق لوگ ہمیشہ باطل کے آگے جھک جایا کرتے ہیں۔ ڈر اور خوف جب انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو پھر ترقی اور کامیابی کے سارے راستے مسدود ہوتے چلے جاتے ہیں اور وقت جب گزر جاتا ہے تب افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بزدل اور کمزور افراد ہی ڈر کو خود پر اس قدر حاوی کرلیتے ہیں کہ وہ خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں۔ ڈر انسان کو لاچار اور محتاج بنادیتا ہے۔ مضبوط قوتِ ارادی کا نہ ہونا ایسے لوگوں کو زندگی کے ایسے موڑ پر لا کھڑا کردیتا ہے جہاں ناکامیوں کا ڈیرا ہوتا ہے بے بسی اور مجبوری ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے، اپنے دل سے خوف اور ڈر کو نکال پھینکئے۔ کمزور اعصاب کے مالک لوگ بہت جلد ہی ڈر اور خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرتا ہے نہ ہی کوئی دو لفظ ہمدردی کے بولنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہوتا ہے کہ جس سے اپنے دل کی بات کی جاسکے جب حالات یہ رخ اختیار کرلیتے ہیں تو پھر ذہنی بے آسودگی انسان سے اس کا اعتماد چھین لیا کرتی ہے۔

ایک مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہر قسم کے بُرے حالات سے نمٹنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ایسے انسان کو کبھی بھی ڈر شکست نہیں دے سکتا۔ ڈر ہمارا سکھ چین سب چھین لیتا ہے، اور زندگی ہمارے لیے مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور مکمل یقین ہمیں ہر چیز سے بے خوف کردیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہمیں برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لوگ ڈر ڈر کر اس طرح جیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہر حالت میں مشکلوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیتے وہ باطل سے ڈر کر جھوٹی گواہی دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ حق کے خلاف بھی کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں دنیا کا تو ڈر ہوتا ہے لیکن… اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں ہوتا۔ اگر اس دنیا میں حق اور سچ کا ساتھ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو ظلم و بربریت کا بازار اس طرح گرم نہ ہوا کرتا ۔ لوگ جینا چاہتے ہیں … لیکن کس طرح جی رہے ہیںیہ نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا موت تو یقینی ہے پھر موت سے کیا ڈر۔ ڈر تو اس بات کا ہونا چاہئے کہ اگر آج ہم انصاف نہ کرسکے، مظلوم کی آواز نہ بن سکے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے قہر کا سامنا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر نجانے ہم کونسی خوشیوں کے پیچھے رات دن بھاگ رہے ہیں۔

مستقبل کا ڈر ہمیں کھائے جاتا ہے امتحان میں ناکام ہونے کا سوچ کر ہم ڈرتے رہتے ہیں لیکن کبھی اپنے مالک حقیقی کی ناراضگی کا سوچ کر ہم کبھی نہیں ڈرتے۔ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہمیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہم گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس بات کا ڈر ہونا چاہئے کہ ہماری زبان سے ادا ہونے والے جملے کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ ہمیں ہمیشہ مظلوم کی آہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ مظلوم کی آہ عرش تک جاتی ہے … عرش تک جاتی ہے۔

Related Posts

غیبت ایک سنگین گناہ

ام سلمیٰ جمالپور ، دربھنگہ غیبت ایک ایسی سماجی برائی ہے جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ یہ نہ صرف اخلاقی زوال کا باعث بنتی ہے بلکہ لوگوں کے…

Read more

غزل

پتھر سے بھی جل نکلے گاہر محنت کا پھل نکلے گاعشق و جنوں کا ربط ہے گہراہر عاشق پاگل نکلے گاشہروں کی گلیوں میں اکثرڈھونڈو تو جنگل نکلے گاکب تک…

Read more

بہو، بیٹیا اورخاندان کی ذمہ داریاں

ام سلمی جمالپور ،دربھنگہ رشتے انسانی زندگی کی بنیاد ہیں، اور شادی کے بعد ایک لڑکی کے لیے اس کا نیا گھر ایک نیا رشتہ دارانہ نظام لے کر آتا…

Read more

ٹکنالاجی جدید دور کی معجزاتی ترقی

ام سلمہ جمالپور ٹیکنالوجی نے حالیہ دہائیوں میں ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ یہ ترقی سائنس، مواصلات، طب، صنعت اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں…

Read more

مسلمان اور ایمانداری

ابوالکلام ایمانداری اسلام کی بنیادی اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے، جو ایک مسلمان کی شخصیت کو سنوارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک…

Read more

قرآن کریم میں عورت کا مقام

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ اللہ رب العزت نے عورتوں کو عزت واحترام کا جومقام دیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *