🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

ام سلمی
جمالپور ،دربھنگہ
رشتے انسانی زندگی کی بنیاد ہیں، اور شادی کے بعد ایک لڑکی کے لیے اس کا نیا گھر ایک نیا رشتہ دارانہ نظام لے کر آتا ہے۔ بہو کی حیثیت سے اس پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جیسے خاندان کے افراد کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا، گھر کے معاملات سنبھالنا اور شوہر کے ساتھ زندگی کا توازن برقرار رکھنا۔ لیکن یہ ذمہ داریاں اس کی شخصیت اور خود مختاری پر اثرانداز نہیں ہونی چاہئیں۔
معاشرتی طور پر بہو سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نئے گھر کے اصولوں اور روایات کو اپنائے، سب کی خدمت کرے، اور اپنے خاندان کو ہمیشہ پہلی ترجیح دے۔ دوسری طرف، ایک بیٹی کو زیادہ آزادی دی جاتی ہے، اسے خود مختاری کا موقع ملتا ہے، اور اس کی ذمہ داریوں کو محدود سمجھا جاتا ہے۔ یہ تضاد بعض اوقات ایک عورت کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے کیونکہ وہ بہو اور بیٹی دونوں کے کردار میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
خود مختاری ہر انسان کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو۔ ایک عورت کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود کرے، خواہ وہ تعلیم ہو، ملازمت ہو، یا گھریلو معاملات۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں بہو کی خود مختاری اکثر محدود کر دی جاتی ہے، جبکہ بیٹی کو نسبتاً زیادہ آزادی دی جاتی ہے۔ اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عورت کو ایک فرد کے طور پر تسلیم کیا جائے، نہ کہ صرف ایک رشتہ دارانہ کردار کے طور پر۔
خاندانوں کو چاہیے کہ وہ بہو کو بھی بیٹی جیسا ہی پیار اور احترام دیں۔
بہو کو اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کی آزادی ملے، جیسا کہ ایک بیٹی کو دی جاتی ہے۔
توقعات کا بوجھ کم کیا جائے اور رشتے محبت اور عزت کی بنیاد پر استوار کیے جائیں۔
خود مختاری اور ذمہ داری کے درمیان ایک توازن قائم کیا جائے تاکہ عورت پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالا جائے۔ اگر ہم بحیثیت معاشرہ ان پہلوؤں پر غور کریں تو ہم ایک ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں جہاں ہر عورت، چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو، عزت، محبت اور خود مختاری کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ہمارے معاشرے میں عورت کو مختلف رشتوں میں توازن پیدا کرنے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ وہ جب تک بیٹی رہتی ہے، اس پر کم توقعات کا بوجھ ہوتا ہے، لیکن شادی کے بعد جب وہ بہو بنتی ہے تو اس کے کردار، ذمہ داریاں اور توقعات یکسر تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس تبدیلی کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے تاکہ عورت کی خود مختاری اور خوشحالی متاثر نہ ہو۔
بیٹی کو عام طور پر گھر میں محبت اور نرمی ملتی ہے، اس کی خواہشات کو اہمیت دی جاتی ہے، اور اس کی زندگی کے بڑے فیصلوں میں اس کی رائے شامل کی جاتی ہے۔
جیسے ہی ایک عورت شادی کے بعد نئے گھر میں قدم رکھتی ہے، اس سے یکدم ایک بالغ، ذمہ دار اور ہر حال میں سمجھوتہ کرنے والی شخصیت کی توقع کی جاتی ہے۔ اس کی آزادی بعض اوقات محدود ہو جاتی ہے، اور وہ صرف اپنی ذات کے بجائے پورے خاندان کے لیے سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
بہو کو اکثر گھر کے اصولوں، روایات اور سب کے آرام و سکون کا خیال رکھنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔
اگر ایک عورت کام کرنا چاہے تو بعض اوقات اسے یہ کہا جاتا ہے کہ گھر کی ذمہ داریاں پہلے ہیں، جبکہ بیٹی کے معاملے میں یہ آزادی زیادہ ہوتی ہے۔
ایک بیٹی کو زیادہ خودمختاری دی جاتی ہے، جبکہ بہو کی رائے کو بعض اوقات کم اہمیت دی جاتی ہے، خاص طور پر مشترکہ خاندانی نظام میں۔ بہو بھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے، اور اسے اسی عزت و محبت کا حقدار سمجھا جانا چاہیے۔ سسرال کو چاہیے کہ بہو کو دباؤ میں لانے کے بجائے اس کے خواب اور امنگیں سمجھنے کی کوشش کرے۔
عورت کو صرف خاندان کے لیے قربانی دینے والی ہستی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی ذاتی زندگی اور ترقی کو بھی اہمیت دی جائے۔
بہو پر غیر ضروری توقعات کا بوجھ ڈالنے کے بجائے محبت اور عزت کا رشتہ استوار کیا جائے۔
عورت کو ہر مرحلے پر اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار دیا جائے، چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو۔
مشترکہ اور انفرادی فیصلوں میں بہو کی رائے کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی گھر کے دوسرے افراد کی دی جاتی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ ترقی کرے تو ہمیں عورت کے دونوں کرداروں کو ایک متوازن نظر سے دیکھنا ہوگا۔ بیٹی اور بہو کے درمیان تفریق کو ختم کر کے ہم ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں عورت اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکے، اپنے خوابوں کو پورا کر سکے اور خودمختار رہتے ہوئے اپنے رشتے بھی احسن طریقے سے نبھا سکے۔