خود احتسابی اور معاشرتی تبدیلی: کامیاب معاشرے کی کنجی

🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

چاند اور تارے

مولانا شیخ حامد علی انواری
ہماری اجتماعی سوچ کا المیہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے جڑے مسائل کے علاوہ باقی تمام معاملات پر دل کھول کر بات کرتا ہے۔ لڑکوں کو جہیز کی مخالفت اچھی نہیں لگتی، مگر وہ اپنی بہن کے حقوقِ وراثت پر خاموش رہتے ہیں۔ لڑکیوں کو دوسری شادی کی افادیت پر بات سننا گوارا نہیں، لیکن وہ اپنے حقوق کے لیے بلند آواز میں بولتی ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ صرف ان کے حقوق پر بات ہو، مگر اپنی اولاد کی تربیت کے تقاضے بھول جاتے ہیں۔ مزدور اپنی محنت کے حقوق مانگتا ہے، مگر اپنے فرائض سے غافل رہتا ہے۔

یہی رویہ ریاست اور عوام میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ریاست صرف اپنے قوانین کو نافذ کرنا چاہتی ہے، لیکن عوام کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کرتی ہے۔ عوام ریاست سے شکایت کرتی ہے، مگر اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو فراموش کر دیتی ہے۔

یہ رویہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم تنقید کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن اصلاح کے عمل سے دور ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد اپنی ذات کو پاک اور دوسروں کو قصوروار قرار دینے میں لگا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سب اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں، تو معاشرے اور ریاست میں تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

معاشرتی اصلاح کا پہلا قدم خود احتسابی ہے۔ خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی، کردار، اور افعال کا جائزہ لے۔ ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے معاشرتی، اخلاقی، اور مذہبی فرائض کس حد تک ادا کر رہے ہیں۔
اگر ایک بھائی اپنی بہن کے حقوقِ وراثت کا تحفظ کرے، ایک شوہر اپنی بیوی کے حقوق کا خیال رکھے، والدین اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیں، اور ریاست عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرے، تو معاشرے میں توازن اور انصاف قائم ہو سکتا ہے۔

تبدیلی کی یہ تحریک صرف انفرادی سطح پر شروع ہو سکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک بہتر معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنے فرائض اور حقوق کو پہچانتا ہے۔ جب تک ہم اپنے فرائض سے غفلت برتیں گے، ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو خود احتسابی کا سبق سکھائیں۔ یہ وہ نسل ہے جو کل کے معاشرے کی تعمیر کرے گی۔ اگر ہم انہیں خود احتسابی، انصاف، اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا سکھائیں، تو ایک مضبوط اور مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔

یاد رکھیں، معاشرہ صرف ان ہی اصولوں پر ترقی کر سکتا ہے جہاں ہر شخص اپنی ذات کا محاسبہ کرے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے۔ خود کو بدلنا ہی نظام کو بدلنے کی پہلی سیڑھی ہے۔

Related Posts

’’ڈر ڈر کر جئے بھی تو کیا جیئے‘‘

سیما شکور، حیدر آباد ’’ڈر‘‘ ہماری کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈر کی وجہ سے ہم ہر وقت اسی سوچ میں اور اسی فکر میں رہتے…

Read more

غیبت ایک سنگین گناہ

ام سلمیٰ جمالپور ، دربھنگہ غیبت ایک ایسی سماجی برائی ہے جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ یہ نہ صرف اخلاقی زوال کا باعث بنتی ہے بلکہ لوگوں کے…

Read more

غزل

پتھر سے بھی جل نکلے گاہر محنت کا پھل نکلے گاعشق و جنوں کا ربط ہے گہراہر عاشق پاگل نکلے گاشہروں کی گلیوں میں اکثرڈھونڈو تو جنگل نکلے گاکب تک…

Read more

بہو، بیٹیا اورخاندان کی ذمہ داریاں

ام سلمی جمالپور ،دربھنگہ رشتے انسانی زندگی کی بنیاد ہیں، اور شادی کے بعد ایک لڑکی کے لیے اس کا نیا گھر ایک نیا رشتہ دارانہ نظام لے کر آتا…

Read more

ٹکنالاجی جدید دور کی معجزاتی ترقی

ام سلمہ جمالپور ٹیکنالوجی نے حالیہ دہائیوں میں ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ یہ ترقی سائنس، مواصلات، طب، صنعت اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں…

Read more

مسلمان اور ایمانداری

ابوالکلام ایمانداری اسلام کی بنیادی اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے، جو ایک مسلمان کی شخصیت کو سنوارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *