عبدالغفار صدیقی
9897565066
جس طرف دیکھئے اور جسے دیکھئے وہ پریشان نظر آتا ہے ۔بہت کم لوگ ہیں جو حال پوچھنے پر الحمد للہ کہتے ہیں،جو کہتے بھی ہیں ان میں بھی اکثر روایتاً اور رسماً کہتے ہیں۔ہرانسان زندگی کی دوڑ میں سرپٹ بھاگ رہا ہے ۔دیہات میں کسی قدر صورت حال غنیمت ہے ۔لوگ سرشام اپنے گھر لوٹ آتے ہیں اور رات کا کھانا اہل خانہ کے ساتھ تناول کر نے کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔لیکن بڑے شہروں خاص طور پر میٹرو پولٹن شہروں کا عجب حال ہے ۔صبح سے رات کے پہلے پہر تک کام کرنے کے باوجود چہروں سے سکون و طمانیت غائب ہے ۔نہ بچوں کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہے اور نہ معصوموں کے ساتھ کھیلنا اور کھانا ۔ایک سنڈے ملتا ہے تو اس میں بھی ہزار کام نکل آتے ہیں ۔تعجب کی بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ذرائع آمدنی معقول ہیں یا جن کی ماہانہ تنخواہیں ایک لاکھ روپے سے بھی متجاوز ہیں ،وہ بھی ذہنی سکون کی عدم فراہمی کا شکوہ کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ برسرروزگار نوجوانوں کے اکثروالدین کی یہ شکایت ہے کہ ان کی اولاد ان کی طرف نہیں دیکھتی ۔یہ مسئلہ کسی ایک خاص قبیلہ یا مذہب کا نہیں ہے بلکہ کیا ہندو کیا مسلمان؟ سب ہی اس بے اطمینانی و بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
میں نے اس مسئلہ پر غور کیاتو اس نتیجہ پر پہنچا کہ بے اطمینانی کی یہ کیفیت ہمارے ناشکرے پن اور حد سے زیادہ پر تکلف زندگی گزارنے کی خواہش کی وجہ سے ہے ۔انسان ساری زندگی محنت کرنے اور خاطر خواہ آسائش حیات حاصل کرنے کے بعد بھی یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے :۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
انسان بوڑھا ہوجاتا ہے ۔اس کے اعضاء کام نہیں کرتے ،اس کے باوجود وہ نوجوانوں کی طرح جینے کی تمنا رکھتا ہے ۔بیماریوں کے سبب اگربعض اشیائے خوردو نوش اس کے لیے ممنوع قرار پاتی ہیں ،توبجائے اس کے کہ صبر کرے ،آہ و بکا و نالہ و شیون کرتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہے :۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا مرے آگے
جن لوگوں کی فکر اور سوچ کا دھارا یہ ہو،جو سب کچھ پاکر بھی ھل من مزید کی رٹ لگائیں ،ظاہر ہے ان کواطمینان و سکون کی دولت کیوں کر نصیب ہوگی ؟
آپ خود پر نظر ڈالیے اور پھر اپنے آس پاس رہنے والے ان لوگوں کابھی جائزہ لیجیے جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا ہے ۔ان کے پاس ایسی بے شمار چیزیں ہوں گی جن کا استعمال وہ سال میں دو چار بار ہی کرتے ہوں گے ۔اگر ہم لباس کی بات کریں تو ایک ایک آدمی کے پاس بیس سے پچاس جوڑی کپڑے موجود ہیں ،اکثر خواتین سال میں دس بارہ جوڑی کپڑے بنانے کے باوجود بھی یہی کہتی ہیں کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔دس جوڑی جوتے ہیں،ان میں بھی بعض بہت قیمتی جن کی قیمت دس بارہ ہزار کی ہے،اگر ان کو پہن کر نماز کے لیے مسجد چلے جائیں تو دھیان جوتوں میں لگا رہتا ہے ،درجن بھر کوٹ ہیں ،جرسیاں اور سوئٹر ہیں ،کسی گھر میں اگر کار نہیں بھی ہے تو ایک سے زیادہ موٹر سائکلس ہیں ،دہلی جیسے شہر میں سڑکوں پر نکل جائیے تو لگتا ہے کہ ایک ہم ہی بے کار ہیں ورنہ ہر آدمی کار والا ہے ۔گھر میں رکھنے کو جگہ نہیں ،پارکنگ چارج برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ،اس کے باوجود بھی کار ہے ۔
اب ذرا کھانے پینے کی اشیاء پر نظر ڈال لیجیے ،ایک زمانہ وہ تھا جب پڑوسی سے سالن مانگ لینا معیوب نہیں تھا ،یا محلہ میں ایسے گھر موجود تھے جن کے یہاں باسی کھانا بھجوادیجیے تو وہ احسان کی نظروں سے دیکھتے تھے ،آج گھر میں کام کرنے والی بائی بھی باسی کھانا اور اترے ہوئے کپڑے لینے کو تیار نہیں۔پرانے زمانے میں اچار اور سرکہ اس لیے ڈالا جاتا تھا کہ تنگ دستی کے ایام میں سالن کی جگہ استعمال ہوگا ، یا برسات کی وجہ سے جب سبزیاں دستیاب نہیں ہوں گی،اس وقت اچار اور سرکہ کفایت کرے گا ،مگر آج اچار ،سرکہ اور چٹنیاں صرف لذت میں اضافہ کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔ہر وقت دستر خوان پر ایک سے زائد سالن موجود رہتے ہیں ۔اس کے باوجود فاسٹ فوڈکے نام پر بہت سی چیزیں آن لائن دستیاب ہیں ۔مسلم علاقوں میں کباب ،بریانی ،حلیم ،چکن فرائی وغیرہ بطور غذا نہیں بلکہ کھانے کے ساتھ یا پیٹ بھر کھانا کھانے کے بعدبطورذائقہ اڑائے جاتے ہیں ۔غیر مسلم علاقے اول تو ان فضولیات سے پاک ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو دہی بھلے ، پکوڑی ،اور مونگ دال چاٹ پر ہی اکتفا کرلیا جاتا ہے جسے دیکھ کر مسلمان منہ بنا کر گزر جاتے ہیں ۔
کبھی فرصت ملے تو اپنے کچن اور باتھ روم میں جو چیزیں موجود ہیں ان کے استعمال اور فائدوں پر بھی غور کیجیے۔گھر میں جتنے افراد ہیں ان کے دس گنا پلیٹیں ،گلاس،اور چمچے ہیں ۔خیر چمچوں پر کوئی قید نہ لگائیں جتنے زیادہ ہوں اتنے اچھے ہیں ۔کچے چینی کا سیٹ الگ ،کانچ کا الگ ،اسٹیل کا الگ اور تانبے کا الگ ہے ۔ہر سائز کی پتیلیاں ہونے کے بعد بھی بیگم کو یہی شکوہ ہے کہ فلاں سالن کس برتن میں پکائوں ؟اس لیے کہ ماشاء اللہ سالن کی تعداد ہی بے شمار ہے ۔گزرے زمانے میں مہمانوں کی آمد پر بہت سی چیزیں پڑوسیوں سے عاریۃ لے لی جاتی تھیں مگر اب خاتون خانہ کو اس میں عار محسوس ہوتی ہے ۔کپڑے دھونے کی مشین پر تو ہم مردوں کا بھی اتفاق ہے کہ ہونی چاہئے ،مگر اب کپڑے سکھانے کے ساتھ ساتھ سنا ہے کہ استری کرنے والی مشین بھی دستیاب ہے۔اس کے علاوہ کچن میں ہر چیز کی مشین ہے ۔اب بہت سی چیزیں آسان قسطوں پر بھی دستیاب ہیں ۔مشینوں کے استعمال نے خواتین کو آرام طلب بنادیا ہے۔اس آرام طلبی نے بہت سی جسمانی اور اخلاقی بیماریوں کو جنم دیا ہے۔
کھانے ،پینے اور پہننے کے علاوہ دوسرے بہت سے ایسے اخراجات ہیں جن کی تکمیل میں ہم سرگرداں ہیں۔کسی نے زمین کا پلاٹ بک کرالیا ہے ،کسی نے کار خرید لی ہے ،جس کی انسٹالمنٹ ہرمہینہ ادا کرنا ہیں ۔ایک مکان ہے تو دوسرے کی تمنا ہے ،سادہ فرش ہے تو ماربل لگوانا ،گرمی زیادہ ہے تو اے سی چاہئے اور سردی سے بچنے کو روم ہیٹر درکار ہیں ،اس لیے کہ آرام طلب جسم کو ئی سختی برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہا ہے ۔یہ سب وہ فضولیات ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے ’’اضافی آمدنی ‘‘(Extra income)کی ضرورت ہے ۔جس کے لیے یا تو اور ٹائم کام کیجیے یا سائڈ بزنس کیجیے ،یا پھر کوئی شارٹ کٹ تلاش کیجیے۔چونکہ آپ کی آمدنی آپ کے اخراجات کے لیے ہی کفایت نہیں کرتی تو آپ اپنے والدین یا اعزہ کو کیا دیں گے ؟یہ صورت حال ان لوگوں کی ہے جن کو ہم اپنے زبان میں ’’ کھاتا پیتا انسان‘‘ کہتے ہیں ۔رہے وہ لوگ جو مال دار کہلاتے ہیں ،جن کی دولت کروڑوں اور اربوں میں شمار ہوتی ہے تو ان کے پاس ان کھاتے پیتے انسانوں سے کم سے کم دس گنا اسباب زیست موجود ہیں۔جتنی رقم میں ایک فیملی کا خرچ چل سکتا ہے اتنی رقم وہ اپنے کتوں پر صرف کردیتے ہیں۔
ان تمام آسائشوں اور تکلفات کے نتیجہ میں بہت سی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ہر بشر کسی نہ کسی آزار کا شکار ہے ۔ہر گھر میں دوائیں آرہی ہیں ۔ ہزاروں روپے ڈاکٹروں کو دیے جارہے ہیں ،ہاسپٹلس میں لمبی قطاریں ہیں۔ڈاکٹروں کو پیسے دیں گے ،درد برداشت کریں گے مگر اپنے گھر میں سادہ طرز زندگی نہیں اپنائیں گے ،نہ اپنے منہ کی لذت کم کریں گے اور نہ محنت کرکے اپنے جسم کو چست رکھنے کی کوشش کریں گے ۔پہلے کھاکھا کر وزن بڑھائیں گے ،پھر اس کو کم کرنے کے لیے دوائیں استعمال کریں گے ،ان دوائوں کے سائڈ افیکٹ ہوں گے تو پھر مزید دوائیں لائیں گے ۔
فضولیات کی یہ آگ جس نے ہمارے سکون کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے ۔صرف ہمارے دنیاوی امور سے ہی متعلق نہیں ہے ۔بلکہ بعض عبادات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ان رسوم کو تو چھوڑئے جن کا دین میں کوئی ذکر ہی نہیں جیسے پیدا ہونے ،مرنے اور شادی بیاہ کے دوران انجام دی جانے والی بہت سی رسومات ۔خالص عبادات میں شمار ہونے والی بعض چیزیں بھی قابل غور ہیں ۔رمضان اس لیے آتا ہے کہ ہم فاقوں کی کیفیت سے گزریں ،کم کھائیں ،طبی نقطہ نظر سے اس میں ہمارا وزن گھٹنا چاہئے ،کولسٹرول کم ہونا چاہئے ،مگر ہماری سحری و افطار کا مینو ایسا کچھ نہیں ہونے دیتا ۔حج اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسان اللہ کے دربار میں سر نیاز جھکائے ،اپنے آپ کو اس کے حوالہ کرے ،دنیا سے محبت میں کمی واقع ہو ،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل جس طرح حج سے پہلے اور حج کے بعد ایک حاجی دنیا سمیٹتا ہے ایسا لگتا ہی نہیں کہ وہ کوئی عبادت انجام دے رہا ہے ۔قربانی کے ایام میں اپنی خواہشات پر چھری چلانے کے بجائے ہمارے مخیر حضرات واجب کے علاوہ نفل قربانی کے نام پر بے دریغ جانوروں کو ذبح کرڈالتے ہیں ۔اس کے علاوہ بعض لوگ ہر سال اس لیے عمرہ کرتے ہیں کہ ان کے سال بھر کے گناہ معاف ہوجائیں ۔
خیال رہے کہ اسلام اچھے کھانے ،مقوی مشروب استعمال کرنے ،اچھا پہننے ،آرام دہ سواری رکھنے سے نہیں روکتا ۔لیکن وہ فضول خرچی سے باز رہنے کی تاکید کرتا ہے ۔فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے ۔وہ ہمسایوں ،رشتہ داروں اور اعزہ و اقرباء کے ساتھ ساتھ بستی کے مساکین و یتامیٰ کی کفالت کرنے ،حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کا حکم دیتا ہے ۔کیا ہم ہفتہ میں ایک دن روزہ رکھ کر ،ہفتہ میں ایک دن چٹنی اور اچار پر گزارہ کرکے ،ایک وقت میں ایک سالن پر اکتفا کرکے اور چند جوڑی کپڑوں میں زندہ نہیں رہ سکتے ۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا تھا :۔’’ دنیا میں اس طرح رہو ،جس طرح کوئی مسافر یا اجنبی رہتا ہے ۔‘‘کیا واقعی ہم مسافروں کی طرح رہتے ہیں ؟
میرے عزیزو!اپنی ضروریات کی فہرست مختصر کرو ۔اپنے مال میں سے ان لوگوں کابھی حصہ نکالوجن کے حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں ۔وراثت شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کرتے ،والدین کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلاسکتے ،غریب اعزہ کو قرض حسنہ نہیں دے سکتے ،کسی حاجت مند کی مدد نہیں کرسکتے ،کسی یتیم کی کفالت نہیں کرسکتے ،یہاں تک کہ تمہا رے پاس میٹھے دو بول بھی نہیں ہیں جو تم کسی کو دے سکو ۔کسی کے آنسو پوچھنے کا بھی وقت نہیں ہے ،محلہ میں کسی کے مرنے کی اطلاع بھی واٹس گروپ سے ملتی ہے۔پھر بھی تم یہ شکایت کرتے ہوکہ زندگی میں سکون نہیں ہے ۔رات کونیند کی گولی کھائے بغیر نیند تک نہیں آتی ۔یہ دنیا جسے تمہیں چھوڑ کر جانا ہے ،اس کے لیے اتنا اسباب تم نے مہیا کرلیا ہے کہ اگر گھر کا سامان دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا پڑے تو کئی ٹرک درکار ہوں اور آخرت جہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کے لیے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ صور ت حال مناسب نہیں ہے ۔اس لیے اپنے گھر سے ہر اس چیز کو باہر کردو جو تمہیں اللہ کی یاد سے غافل کرے ،خود کو جفاکش بنائو ،اپنی خواہشات کو بے لگام نہ کرو۔ورنہ دنیا میں تمہیں کبھی سکون کی دولت نصیب نہ ہوگی ۔بقول شیخ ابراہیم ذوقؔ:
اے ذوق تکلف میںہے تکلیف سراسر
آرام میں وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا