محمد اطہر القاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
رابطہ نمبر:- 9934513550
ملت اسلامیہ ہند کے عظیم پاسباں ،سرمایہ ملت کے بے لوث نگہباں ،شریعت اسلامیہ کے محافظ ،فکر دیوبند کے ترجمان ،اکابرین امت کے معتمد ،علم و فن کے شہسوار ،ساحر اللسان خطیب ،کامیاب مدرس ،بہترین منتظم ،قادر الکلام داعی ،خطہ اعظم گڈھ کے سپوت ،علماء و حفاظ کی نگری جہاناگنج کے لعل و گہر ،سینکڑوں مدارس ومساجد کے نگہباں ،ہزاروں طالبان علوم نبویہ کے معلم ،جامعہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج کے ناظم اعلٰی اور جمعیت علماء اترپردیش کے صدر محترم فخر ملت حضرت مولانا عبد الرب صاحب اعظمی کی رحلت کی خبر نے قلب و جگر کو مضطرب کردیا۔ انا للہ و انا الیہ رجعون۔ چونکہ اس فانی دینا کی ہر شی کو فنا ہونا ہے اور صرف ایک ہی ذات ہے جو رب العالمین ہے جس کو دوام و بقاء حاصل ہے ۔اس لئے اپنے اس عظیم محسن اور بچپن سے بڑھاپے تک کے مربی کی رحلت پر اسی رب العالمین سے دست بستہ دعائیں کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس مخلص بندے کو معاف فرمائے ،ان کے سیآت کو حسنات سے مبدل فرمائے ،انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے ،ملک و ملت کے لئے ان کی عظیم الشان خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے اور ان کے جملہ پس ماندگان و متعلقین کے ساتھ ہم جیسے ہزاروں سوگوار ان کے عقیدت مندوں کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے اور ان کے خون و پسینہ سے سینچے گئے تعلیمی و تربیتی گہوارہ جامعہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج اور جمعیت علماء اترپردیش کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے! جمعیت علماء ارریہ بہار کی پوری ٹیم حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ کو خراج عقیدت اور ان کے جملہ وارثان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتی ہے اور تمام احباب سے حضرت والا رحمہ اللہ کے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کرتی ہے۔ حضرت مولانا کا چہرہ آج بار بار ذہن و دماغ پر گردش کررہاہے ۔مولانا مرحوم کا چہرہ نہایت خوبصورت ،چہرے پر مسکراہٹ ،مسکراہٹ سے ٹپکتا نور ،کشادہ پیشانی ،آنکھوں پر سیاہ چشمہ ،چشمے کے نیچے سے پھڑکتی آنکھیں ،ہاتھ میں عصا ،سنجیدگی سے مالامال قد وقامت ،باوزن و باوقار رفتار ،مدلل و مضبوط گفتار ،سوالوں کا مسکت جواب ،حق و صداقت کے لئے علم بردار ،اعزہ و اقارب کے لئے نہایت خیرخواہ ،طلبہ عزیز کے لئے ریشم جیسا نرم و نازک ،باطل پرستوں کے لئے برہنہ تلوار ،
مصائب ومشکلات میں عزم و استقلال کا پہاڑ ،دفاع ملت کے لئے آہنی دیوار ،قومی و ملی معاملات کے لئے ہمہ وقت حاضر باش ،ضرورت مندوں اور مصیبت کے ماروں کے لئے سایۂ ثمردار اور ان سب کے باوجود ان کا طرز زندگی نہایت سادہ اور بے تکلف تھا۔ حضرت مولانا نے تقریباََ نصف صدی اپنے قصبہ جہاناگنج کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ عربیہ انوار العلوم کے عہدہ نظامت پر فائز رہ کر اسے چار چاند لگایا ،مولانا کو یہ عہدہ اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد اقبال صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کے بعد شوریٰ نے سپرد کی تھی اور مولانا نے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جوانی کے سارے ایام ادارے کی فلاح وبہبود اور تعمیر و ترقی میں صرف کردی اور ابھی بہت سارے خاکے اور عزائم ان کے ذہنوں میں موجزن تھے کہ چہرے پر نمودار ایک چھوٹی سے ٹیومر نے ان کی زندگی کی رفتار و گفتار پر ایسی بریک لگائی کہ انہوں نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ حضرت مولانا عبد الرب صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ اپنے خطے میں اہل علم و ادب اور سماجی و معاشرتی مصلح کی حیثیت سے متعارف تھے اور گوناگوں خوبیوں اور صلاحیتوں کی بناء پر اکابر علماء دیوبند و اکابر جمعیت علماء ہند کے منظور نظر بن گئے تھے۔ مولانا یوں تو اپنے خطے کے مقبول ترین عالم دین تھے لیکن پڑوسی ریاست بہار و بنگال و جھارکھنڈ سے بھی انہیں بے انتہا محبت تھی ،ان میں بھی صوبہ بہار سے انہیں بےحد جذباتی لگاؤ تھا ،اسی لئے ان کے ادارے میں مقامی طلبہ عزیز کے علاوہ سب سے زیادہ بچے بہار کے رہا کرتے تھے ،وہ بارہا یہاں بہار کا سفر بھی فرمایا کرتے تھے اور ان کے عقیدت مند طلبہ ان کے لئے فرش راہ بننے کو اپنے لئے سعادت مندی سمجھتے تھے ،چنانچہ جہاں ملک و بیرونِ ملک ان کے سینکڑوں فیض یافتگان موجود ہیں وہیں صوبہ بہار سے وابستہ ان کے ہزاروں طلبہ ملک و ملت کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں جو بلاشبہ ان کے لئے صدقہِ جاریہ ہیں اور آج ان کی رحلت سے خطۂ جہاناگنج و اعظم گڈھ اور اترپردیش کے ساتھ ریاست بہار بالخصوص علاقہ سیمانچل اور ضلع ارریہ میں غم و الم کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ یوں تو اپنے تمام طلبہ عزیز پر باپ کی طرح شفقت و پیار کا معاملہ فرمایا کرتے تھے لیکن اس عاجز محمد اطہر القاسمی پر آپ کی شفقت و محبت بےمثال تھی ۔
آج سے تقریباًً پینتیس (35) برس قبل ہمارے غریب خانے پر جناب قاری عثمان غنی عادل صاحب اور قاری نفیس اختر صاحب جہاناگنج سے تشریف لائے تھے، بندہ اس وقت اپنے گاؤں کے اسکول میں ابتدائی درجات میں تھا ،دونوں بزرگوں کا قیام اسی عاجز کے گھر تھا ،اس درمیان مہمانوں کی خدمت اسی بندے کے سپرد تھی ،اللہ کا نظام کہ دونوں قاری صاحبان نے والدین کو تیار کرلیا اور یوں اسکول چھوڑا کر یہ دونوں بزرگوار بندہ کو اپنے ساتھ جہاناگنج لےکر چلے گئے اور انوار العلوم میں شعبہ حفظ میں داخلہ کروادیا ،حفظ قرآن کریم کا بسم اللہ کیا ہوا کہ ناظم اعلٰی حضرت مولانا عبد الرب صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی بےپناہ محبتوں اور شفقتوں کے ایسے نقوش چھوڑے کہ اس کا اجر حق جل مجدہ ہی روز حشر انہیں اپنی رضا کی شکل میں عطافرمائے گا ان شاء اللہ۔ فراغت کے بعد رفتہ رفتہ حضرت مولانا کو جب علم ہوا کہ درس وتدریس کے علاوہ بندہ ٹوٹی پھوٹی تحریر کے ساتھ تقریریں بھی کرلیا کرتا ہے تو اکثر فون کرکے خوب خوب حوصلہ افزائی فرماتے اور بےشمار دعاؤں سے نوازتے اور کہتے کہ تماری تحریر بڑے مزے لے لے کر پڑھتا ہوں ،کئی بار قاری عثمان غنی عادل صاحب و قاری نفیس اختر صاحب کے توسط سے جہاناگنج کے متعدد اجلاس میں شرکت کی سعادتوں سے نوازا اور دعاؤں کے ساتھ خوب خاطر تواضع فرمائی۔ آپ جب جمعیت علماء اترپردیش مشرقی زون پھر پوری ریاست کے صدر محترم بنائے گئے تو توجہات میں مزید اضافہ ہوگیا اور جمعیت علماء اترپردیش کے پلیٹ فارم سے یہاں ارریہ بہار کے متاثرین کی خوب دادرسی فرمانے لگے ،2017 کے تباہ کن سیلاب میں آپ اور محسن و مربی حضرت مولانا حافظ عبد الحئی صاحب مفتاحی ناظم اعلٰی جامعہ عربیہ منبع العلوم خیرآباد و صدر جمعیت علماء مشرقی زون اترپردیش نے مل کر متاثرین کی خوب خوب امداد و اعانت فرمائی ۔
یہاں ارریہ کے طلبہ جو بیرون ریاست مدارس میں پڑھنے کے لئے جارہے تھے اور کئی بار انہیں بال مزدور کہ کر پولیس اترپردیش کے حدود میں حراست میں لے لیا تو بندہ نے حضرت مولانا سے فوری رابطہ کیا اور پولس حراست سے رہائی کی درخواست کی تو یہی نہیں کہ حضرت والا نے بچوں کو رہا کروادیا بلکہ باضابطہ وکیل کرکے بچوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کی ضمانت بھی کروائی اور پولیس وین کے ذریعے سبھوں کو بحفاظت یہاں ارریہ بھجوایا اور جب تک سبھوں کی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں ہوگئی وہ مسلسل بندہ سے فون پر رابطہ کرتے رہے۔ ابھی سال گذشتہ ارریہ کا ایک شخص ٹرین پر آتے ہوئے لکھنؤ کے قریب حادثہ کا شکار ہوگیا اور لاش پولس نے سرکاری ہاسپٹل کے سپرد کردی ،اہل خانہ لاش کے لئے کافی پریشان ہوئے ،این او سی کا مسئلہ درپیش آگیا ،اہل میت نے اس عاجز سے لاش ارریہ منگوانے کی درخواست کی ،بندہ نے فوراً حضرت مولانا سے رابطہ کیا ،مولانا نے اسی وقت لکھنؤ کی جمعیت سے رابطہ کرکے تعاون کی ہدایت دی ،جمعیت علماء لکھنؤ کی پوری ٹیم نے بےانتہا مروت و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارا کام کروا کر اپنے اخراجات پر بذریعہ ایمبولینس لاش یہاں بلوا ارریہ بھجوایا اور حضرت مولانا اس بندہ سے مسلسل رابطے میں رہے اور حکم دیا کہ آپ ہی کو نمازِ جنازہ پڑھانا ہے ،ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی کہ جمعیت کا تعارف کراتے ہوئے میرے تمام ساتھیوں کے لئے دعائیں کروادینا۔ سال گذشتہ جمعیت علماء اترپردیش کے دو زون کا تربیتی اجلاس لکھنؤ میں تھا ،بندہ بھی جمعیت علماء ارریہ کی ایک ٹیم کے ساتھ وہاں حاضر ہوا تو اختتام اجلاس کے بعد ساتھی تو وطن لوٹ گئے لیکن حضرت مولانا اس عزیز کو اپنے ساتھ جہاناگنج لے آئے اور لکھنؤ سے جہاناگنج تک اپنے بغل کی سیٹ پر بٹھا کر بہت ساری گفتگو کرتے رہے ،پھر یہاں جہاناگنج آنے کے بعد قاری صاحب سے مل کر چار روزہ پروگرام طے کیا اور جامعہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج کے ساتھ جامعہ عربیہ منبع العلوم خیرآباد ،جامعہ عربیہ عین الاسلام نوادہ اور جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے ساتھ متعدد مقامات پر نشستیں رکھوائی اور حوصلہ افزائی کی ۔
ہفتہ دن قبل قاری عثمان غنی عادل صاحب سے گفتگو ہورہی تھی کہ طبیعت زیادہ ناساز ہے ،چھٹی لےکر ایک سفر کریں گے اور حضرت مولانا کی زیارت کریں گے لیکن آج یہ تعزیتی کلمات لکھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرنا پڑ رہا ہے کہ اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ و لایستقدمون۔ الحاصل باتیں طویل ہوگئیں ،پتہ نہیں فرط جذبات میں کیا کیا لکھا چلا گیا ۔لیکن جو بھی لکھا گیا وہ حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کے اوصاف وکمالات ،خدمات جلیلہ ،مخلصانہ کوششیں ،خوب سے خوب تر جدوجہد ،بےپناہ محبتیں اور حد درجہ عنایات و نوازشات کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے ،کیونکہ یہ عاجز حضرت مولانا کا ایک ادنیٰ سا فیض یافتہ اور ان کی جوتیوں کا دھول و گرد و غبار ہے ،یہ کیا لکھ سکتاہے ،لکھنے والے اب لکھیں گے ۔ان کے کارہائے نمایاں اور بےشمار قومی و ملی خدمات ہیں جو سنہرے حروف سے تاریخ کے اوراق میں بطورِ دستاویز مرتب ہوں گے اور آنے والی نسلیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس فخر قوم اور سرمایۂ ملت کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!