سماج کو درپیش ایک موجودہ مسئلہ پہ خصوصی آرٹیکل‎

محمد عباس دھالیوال
ضلع ملیرکوٹلہ، پنجاب

Abbasdhaliwal72@gmail.com

جب ہم بچپن میں چھوٹی کلاسوں میں پڑھا کرتے تھے تب اکثر ہم اخبارات کے فوائد و نقصانات یا ٹیلی-ویژن کے فائدے اور نقصانات پہ مضمون لکھا کرتے تھے اب جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹل ہوتے جا رہی ہے اور انٹرنیٹ کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا کے اس دور مضامین کے موضوعات یکسر بدلتے جا رہے۔
آجکل مختلف کلاسز کے نصاب میں انٹرنیٹ کے فائدے اور نقصانات جیسے موضوع شامل کیے جا رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آج ہماری روزانہ زندگی میں سوشل میڈیا کی مختلف ایپس کا بے جا استعمال ہو رہا ہے اور اس میں کیا بچے کیا بوڑھے کیا جوان اور کیا مرد کیا عورت سبھی ملوث نظر آ رہے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع ہمیں بہت سی معلومات فراہم کروانے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں لیکن وہیں ان کا بے جا استعمال ہمیں بہت سارے موزی نقصانات پہنچا رہا ہے. اگر اس سلسلے میں دیکھا جائے تو اس سوشل میڈیا کا شکار سب سے زیادہ ہمارے ٹین ایج بچے ہو رہے ہیں. اس ضمن میں سماجی رویے پر تحقیق کرنے
والے ایک گروپ نے تجربے کے بعد اپنے نتائج کے حوالے سے خلاصہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال نوجوانوں خصوصاً بچوں کو منشیات، شراب، سگریٹ اور جوئے سمیت دیگر منفی
عوامی یا رویوں کی ترغیب دلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف گلاسگو، یونیورسٹی آف اسٹریتھکلائڈ اور پبلک ہیلتھ اسکاٹ لینڈ کے محققین نے 10 سے 19 سال کے درمیان نوجوانوں پر پڑنے والے سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ لیا۔ 1997 سے 2022 کے درمیان ہونے والے 73 مطالعات میں مجموعی طور پر 14 لاکھ نوجوان شریک ہوئے تھے اور ان کی اوسط عمر 15 برس تھی۔
اس تجربے و تحقیق میں معلوم ہوا کہ روزانہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں میں شراب نوشی (48 فی صد)، منشیات کے استعمال (28 فی صد) اور سیگریٹ نوشی (85 فی صد) کے امکانات روزانہ سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ تحقیق میں سیگریٹ نوشی اور تمباکو کا استعمال زیادہ آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں زیادہ دیکھا گیا۔

برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ نتائج والدین کے رویے جیسے شامل نہ کیے گئے عوامل سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ مختلف پلیٹ فارمز پر الکوحل کے اشتہارات کو نقصان کے سب سے مضبوط ثبوت کے طور پر دیکھا گیا۔

اب بچوں پہ سوشل میڈیا کے پڑنے والے مذکورہ منفی اثرات کو محسوس کرتے ہوئے آسٹریلیا کے ایوان نمائندگان نے گزشتہ دنوں ایک بل کو منظوری دی. جس کے تحت اب 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہو گی۔ اب یہ بل حتمی منظوری کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا جس کے بعد یہ اس نوعیت کا دنیا کا پہلا قانون بن جائے گا۔

یہاں قابل ذکر ہے کہ اس بل کو ایوان نمائندگان میں موجود بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
اس بل کے تحت ٹک ٹاک، فیس بک، اسنیپ چیٹ، ریڈٹ، ایکس اور انسٹاگرام سمیت دیگر پلیٹ فارمز کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کا نظام قائم کریں۔ ناکامی کی صورت میں انہیں 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس بل کی منظوری 13 کے مقابلے نیں 102 ووٹوں سے ہوئی۔ اگر اس ہفتے بل کو سینیٹ سے منظوری مل جاتی ہے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس جرمانے سے بچنے کے لیے ایک سال کا وقت ہو گا تاکہ عمر کی پابندی کے اطلاق کے لیے نظام وضع کر سکیں۔

حزب اختلاف کے ایک قانون ساز ڈین تہان نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت نے سینیٹ میں ایسی ترامیم قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے جس سے رازداری کے تحفظ کو تقویت ملے گی۔
وہیں اب سوشل میڈیاپلیٹ فارمز کو یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ اپنے صارفین کو پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس سمیت حکومت کی جاری کردہ شناختی دستاویزات فراہم کرنے پر مجبور کریں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شناخت کا سرکاری ڈیجیٹل نظام بھی استعمال نہیں کر سکیں گے۔

تہان نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ کامل ہو گا؟ نہیں۔ کیا کوئی اور قانون کامل ہے؟ نہیں۔ لیکن اگر یہ قانون مدد کرتا ہے، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی مدد دیتا ہے تو اس سے لوگوں کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق پڑے گا۔
بل کے مسودے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس بل کو مناسب جانچ پرکھ کے بغیر ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بل سے مقاصد حاصل نہیں ہو پائیں گے اور یہ قانون ہر عمر کے صارفین کی رازداری کے لیے خطرات پیدا کرے گا اور والدین سے یہ اختیار چھین لے گا کہ ان کے بچوں کے لیے کیا بہتر ہے۔

بل کے مخالفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پابندی سے بچے سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں سے محروم ہو جائیں گے۔ وہ الگ تھلگ ہو جائیں گے اور ان کا ڈارک ویب کی طرف جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
ایک آزاد قانون ساز زوئی ڈینیئل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا میں جو کچھ پایا جاتا ہے، یہ قانون سازی اسے رتی بھر نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ڈینیئل نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سازی کا اصل مقصد سوشل میڈیا کے ڈیزائن کو محفوظ بنانا نہیں، بلکہ والدین اور ووٹروں کو یہ محسوس کرانا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کچھ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ حکومت عالمی سطح پر اولیت لینا چاہتی ہے کیونکہ کوئی دوسراملک اس طرح کا قانون بنانا نہیں چاہتا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ایک حکومتی کمشن کی جانب سے عمر کی پابندی کے اطلاق کے سلسلے میں عمر کی یقین دہانی کی ٹیکنالوجیز سے متعلق رپورٹ کے بعد اس قانون سازی پر ووٹنگ کو کم ازکم اگلے سال جون تک مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔

میلبرن کے ایک رہائشی وین ہولڈزورتھ نے، جن کے 17 سالہ بیٹے نے گزشتہ سال آن لائن جنسی زیادتی کے ایک اسکینڈل کا شکار بننے کے بعد خود کشی کر لی تھی، کہا کہ یہ بل ہمارے بچوں کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں آج دنیا کے ہر ایک ملک کے رہنماؤں کو اس بابت سوچنے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ ایسے قوانین بنانے بھی بے حد ضرورت ہیں . جن کے نفاذ سے ہم اخلاقی و جسمانی تنزلی کا شکار ہو رہی اپنی نوجوان نسل کو بچا سکیں۔اور ہاں اگر وقت رہتے ہم اپنے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی اس دلدل سے باہر نہ نکال پائے تو یقیناً بہت… بہت دیر ہوجائے گی۔

Leave a Comment