امت کو چاہئے !جانور میں عیب تلاش کرنے سے پہلے اپنی آمدنی میں عیب تلاش کریں
قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668
اللہ کی راہ میں دی جانے والی قربانی کے متعلق سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر قربانی ہے کیا؟ اللہ کی راہ میں دی جانے والی قربانی کے متعلق مسجدوں میں خطیب حضرات قربانی کا فلسفہ بیان کرتے ہیں، اس فرض کی غرض وغایت بیان کی جاتی ہے؟ نعمتوں کے شکرانے کے طور پر اپنی محبوب اور خوبصورت پسندیدہ شئے کی اللہ کی راہ میں اس کے نام پر قربانی کی فضیلت بتائی جاتی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا جب منبر ومحراب سے اس مقدس تہوار کے موقع پر واعظ اس بات پر زور دیتے کہ قربانی صرف جانوروں کے گلے پر چھری پھیرنے کا نام نہیں بلکہ نفسانی حیوانی جذبات کا سدھار بھی قربانی ہے،قربانی صرف مال ومتاع کی نہیں بلکہ اپنی آرزوروں اور خواہشات کو ترک کردینا بھی قربانی ہے، ذاتی عیش وآرام کو تج دینابھی قربانی ہے، منافقت اور تنازعات سے بچنے کے لئے اپنا حق چھوڑ دینا بھی قربانی ہے، دوسروں کے چین وسکون، خوشی کے لئے خود تکلیف اُٹھانا بھی قربانی ہے، راستے سے کانٹے پتھر ہٹانا بھی قربانی ہے، دوسروں کے لئے آسانیاں فراہم کرنا بھی قربانی ہے۔ مگر کوئی بھی خطیب واعظ اور ناصح کسی کو سمجھانے کا خطرہ مول نہیںلینا چاہتا ، جبکہ ایک انسان کی دوسرے انسان کے لئے محبت، ایثار اور قربانی پر اللہ تعالیٰ کہیں زیادہ خوشی ہوتا ہے۔ مگرکچھ ایسا زمانے کی دستور ہوگیا ہے کہ ذاتی نام ونمود کے لئے مہنگے سے مہنگا جانور ذبح تو کردیا جاتا ہے، ہر غریب اور مستحقین میں بانٹتے وقت جو رویہ اپنا یا جاتا ہے وہ قربانی کا سارا اجر ضائع کردیتا ہے۔ اچھا گوشت مال داروں کے یہاں بھیجا جاتا ہے اور چھیچھڑے ہڈیاں غریبوں کے یہاں بھیجی جاتی ہیں۔
قارئین محترم! جانور کمزور اور لاغر نہ ہو، کان کٹا نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہو، بیمار نہ ہو وغیرہ وغیرہ حدیث رسولؐ کی روشنی میں قربانی کے جانور کا ان تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہونا ضروری ہے جو جانور ان عیبوں سے پاک ہوگا، صرف اسی کے گلے پر چھری پھیری جاسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرنے والے مسلمان کے لئے بھی کوئی معیار ہے یا نہیں؟ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے مسلمان کو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا اپنا ایمان کمزور ، ضعیف ، ناقص اور لنگڑا تو نہیں؟ اس کے کان آنکھیں، ہاتھ پائوں اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے داغدار تو نہیں؟ اس کا جسم ، دل ودماغ گناہ کے عیبوں سے آلودہ تو نہیں؟ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے والے نے پہلے اپنی نفسانی وشیطانی خواہشات کے گلے پر چھری پھیری یا نہیں؟ اور کیا جانور کے قربانی کرنے والے نے پہلے حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی طرح خود کی اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے پیش کیا یا نہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو ایک مسلمان جانور کے گلے میں چھری پھیرنے کا حق رکھتا ہے پھر اس کی قربانی اللہ کے ہاں قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ یاد رکھیں کسی بھی کامیابی کے لئے قربانی ضروری ہے۔ اس لئے جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات کی قربانی ضروری ہے اور قربانی کے بغیر چارہ نہیں اس لئے جو قوم قربانی نہیں کرتی جانور کی، مال ودولت کی، وقت کی۔ اللہ کے دین کی خاطر بیوی ، بچے، والدین اور گھر بار کو چھوڑنے کی اور جہاد فی سبیل اللہ اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے جانوں کے نذ رانوں کی قربانی نہیں کرتی ایک وقت آتا ہے جب وہ قوم خود دشمنوں کے ہاتھوں ذبح ہوجاتی ہے اور صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ قارئین محترم! نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے علما کرام چاہے وہ جس بھی مکتب فکر کے ہوں قربانی سے دو ہفتہ پیشتر ، مسجد کے منبر سے کھڑے ہوکر قربانی کے جانوروں میں کیا کیا عیب ہونے سے قربانی نہیں ہوگی بتاتے ہیں۔ وہ امت کو یہ تو بتاتے ہیں کہ قربانی کا جانورتندرست ہو، دبلا پتلا او کمزور نہ ہو، بیمار نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہو، کان کٹا ہوا نہ ہو الغرض ایک جانور میں سینکڑوں عیب گنوادیتے ہیں لیکن ایک بار بھی ہمارے علماکرام قربانی دینے والے کے اندر بھی یہ عیب نہیں ہونی چاہئے کبھی نہیں بتاتے اگر وہ صرف ایک ہی عیب کہ حرام کی کمائی سے خریدی گئی جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی اتنا بھی نہیں بول پاتے کیونکہ اگر یہ بات کہہ دی تو اکثریت لوگوں کی قربانی ان ہی کمائی سے ہوتی ہے اب وہ حرام کے پیسے سے قربانی نہیں کرینگے تو ان کے مدارس کو چمڑا کہاں سے ملے گا اور چمڑا نہیں ملے گا تو پاکٹ میں مال کہاں سے آئے گی۔ بدقسمتی سے آج قربانی کو صرف بکرے اور دنبہ کی قربانی کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، گویا چند روپئے خرچ کرکے ہم قربانی دینے والوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اس کے بعد پھر ہمیں کسی قربانی کی ضروری نہیں رہتی۔ آج مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا مطلب صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر سال حج کر لیا جائے، ولیمہ اور عقیقہ میں شاندار دعوت کردی جائے اور بقر عید کے موقع پر کسی جانور کی قربانی کرلی جائے اور پھر اس کے بعد سال بھر چین کی بانسری بجائی جائے اس پر شکایت ہوتی ہے کہ اللہ کی نصرت نہیں آتی اور ہم مسلمانوں کی مدد نہیں ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نماز قضا ہوجاتی ہے، کسی کی حق تلفی ہوجاتی ہے کوئی ناجائز کام ہم سے سرزد ہوجاتا لیکن ہمیں احساس تک نہیں ہوتا؟ آخر میں بس اتنا ہی عرض ہے کہ قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی پہلے اپنے ارادے اپنی خواہش اپنی عادت اور اپنے مزاج کے گلے پر چھری پھیرے، اپنے دل کے کہنے پر نہیں بلکہ خدا اور رسولؐ کے کہنے پر چلنے کا فیصلہ کرے، کم از کم بڑے گناہوں سے بچے مثلاً غیبت ، خیانت ، جھوٹ اور فرائض میں کوتاہی سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے اور اس راہ میں اگر اس کو اپنے اوقات اور اپنی عادت کو کچھ قربانی کرنی پڑ رہی ہو تو اس سے بالکل بھی دریغ نہ کرے۔ کیونکہ قربانی کی یہی صحیح تصویر سے جس پر خدا کی نصرت کا وعدہ ہے۔ لہذا امت کو چاہئے کہ جانور میں عیب تلاش کرنے سے پہلے اپنی آمدنی میں عیب تلاش کریں۔