!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی

کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے ، ملک عدم کو راہی ہو جائے ، شہر خموشاں میں آرام کرنے کا موقع آجائے ، قیمتی پوشاک جسم سے اتر جائے ، محلات اور مکانات چھوٹ جائے ، مخمل کے بستر پر سونے والا کفن میں لپٹا ہوا مٹی میں سوجائے ، سیکڑوں افراد کے ہمراہ قبرستان تک جائے اور اکیلا رہ جائے کل ملاکر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کب کہاں اور کس وقت موت آجائے ،، ایسا ہی کچھ تعلقات میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ کب کہاں اور کس وقت محبت کو ٹھکرادیا جائے ، رشتہ ٹوٹ جائے ، محبت عداوت میں تبدیل ہوجائے ، باغیچوں کی رکھوالی کرنے والا کب کسی ہرے درخت کی جڑوں میں گرم پانی ڈال دے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ آج کے دور میں بہت سے لوگوں کی مسکراہٹ خنجر ثابت ہوتی ہے ، درخت کی ٹہنیوں کو سجانے اور سنوارنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر درختوں کی ٹہنیوں کو سجانے اور سنوارنے والا کام کرتے ہیں اور حقیقت میں وہ درختوں کی جڑوں میں گرم پانی ڈالنے کی فراق میں ہوتے ہیں یعنی احباب کی محفلوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر دوست نظر آتے ہیں مگر وہ اندر ہی اندر جلتے بھنتے رہتے ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ دوسرے کا حق مارتے ہیں ، چاپلوسی کا سہارا لیتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ دوستی میں شک کی گنجائش نہیں ہے مگر پہلے دوستی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی اہمیت اور حقیقت کیا ہے ایک بہت ہی عظیم ہستی کا قول ہے کہ بھائی سونا ہوتا ہے اور دوست ہیرا ہوتا ہے ،، سونے کو پگھلایا جاسکتا ہے ،

اگر زیور کی شکل میں ہے تو ٹوٹ جانے پر جوڑا جاسکتا ہے مگر ہیرا ٹوٹ جائے تو اسے اصلی شکل نہیں دی جاسکتی ، بھائی روٹھ جائے تو منایا جاسکتا ہے ، کھلایا اور پلایا جاسکتا ہے گویا وہ پھر سب کچھ بھلا کر اصلی شکل میں آسکتا ہے مگر دوستی درار آگئی تو پھر وہ درار بھرنے کی لاکھ کوشش کے بعد بھی لکیر کو مٹایا نہیں جاسکتا ، دوسری ایک عظیم ہستی کا قول ہے کہ ایک دوست کو دیکھ کر دوسرے دوست کو بہت سکون ملتا ہے اس کی گھبراہٹ کا خاتمہ ہوجاتاہے اور اسے اللہ کی یاد آنے لگتی ہے معلوم یہ ہوا کہ صرف ڈھابوں کھالینا، مسکرا کر بات کرلینا، صرف ہاتھ ملا لینا، چائے ناشتہ کرلینا ، ہنسنے ہنسانے کےلیے جھوٹ بول لینا اور کھا پی لینا یہ اصل دوستی نہیں ہے بلکہ یہ تو مطلب کی دوستی ہے ، مفاد پرستی پر مبنی مصنوعی محبت ہے ،، سچی محبت مفاد اور مطلب سے پاک ہوتی ہے ، دوست سے مذاق نہیں کیا جاسکتا ، دوست کو گالیوں سے مخاطب نہیں کیا جاسکتا بلکہ اخلاص اور وفا کا نام دوستی اور محبت ہے ، لڑکھڑاتے ہوئے قدم کو نیک نیتی کے ساتھ سنبھالنے کا نام دوستی اور محبت ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی سلامتی کے لئے دعا کرنے کا نام دوستی اور محبت ہے اور شک کرنا تو دور کی بات ہے شکوک وشبہات کا کوئی راستہ ہی نہ کھلنے پائے ایسا عزم و حوصلہ، ارادہ و جذبہ رکھنے کا نام دوستی اور محبت ہے لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ کسی سے ملاقات کرو تو شک، ایک بار کے بلانے پر نہ آئیں تو شک، آنے میں تھوڑی دیر ہوجائے تو شک اور جب تعلقات میں شک پیدا ہوجائے تو وہ محبت کی راہ میں دیمک کا کردار ادا کرتاہے ،، دو بچے ساتھ اسکول جاتے ہیں لباس ایک جیسا، اسکول بیگ ایک جیسا دونوں روزانہ صبح سویرے ایک ایسے مقام پر ملتے ہیں کہ وہاں سے ساتھ اسکول جاتے ہیں راستے میں ایک بوڑھی عورت کا گھر پڑتا ہے وہ دونوں سے بظاہر محبت و الفت اور ہمدردی کا اظہار کرتی ہے لیکن اندر ہی اندر وہ دونوں دوست سے جلتی ہے وہ ایک شاطرانہ چال چلنے کا منصوبہ بناتی ہے۔

، وہ دونوں کی جدائی دیکھنا چاہتی ہے دونوں دوست جب بھی راستے سے گزرتے تو وہ اپنے دروازے پر بلاکر دونوں کو پانی پلاتی ، وہ دونوں کی پیٹھ تھپتھپاتی پھر دونوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھتی اور کہتی کہ جاؤ بچوں محنت سے پڑھ نا ،، آخر کار ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے دروازے پر کھڑی بچوں کا انتظار کررہی تھی کہ اتنے میں وہ دونوں دوست نظر آئے ہاتھوں سے اشارہ کرکے بلاتی ہے دونوں بچے اس کے پاس جانے کے لئے بڑھے تو اس نے ایک طرف اشارہ کیا تم آؤ جب وہ بچہ پاس پہنچتا ہے تو اس بوڑھی عورت نے اپنے ہونٹوں کو اس بچے کے کان تک لے گئی اور کچھ نہ کہہ کر اشارہ کردیا کہ اسکول جاؤ اب وہ بچہ اپنے دوست کے پاس پہنچتا ہے تو دوسرا بچہ پوچھتا ہے کہ اس عورت نے کیا کہا تو وہ بچہ وہ دوست کہتاہے کہ اس نے کچھ بھی نہیں کہا اب دوسرا بچہ کہتاہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے تمہارے کان میں کچھ کہتے ہوئے دیکھا ہے پہلا بچہ کہتاہے کہ کچھ بھی نہیں کہا وہ صرف اپنے ہونٹوں کو میرے کان تک لے گئی مگر کہا کچھ نہیں دوسرا بچہ کہتاہے کہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس عورت نے اپنے ہونٹوں کو تمہارے کان تک لے گئی اور کچھ نہ کہا ہو ،، تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بحث و مباحثہ کے بعد دونوں ایک دوسرے سے روٹھ گئے دونوں الگ اسکول جانے لگے ، دونوں ایک دوسرے کا انتظار کرنا بند کردئیے ، ملنا جلنا اور بات چیت کرنا ، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بند کردئیے،، بچپن کی دوستی اور محبت پل بھر میں خاک میں مل گئی ، ایک دوسرے پر یقین و اعتماد شکوک وشبہات کی بھینٹ چڑھ گیا،، آئیے ایک اور محبت کا تذکرہ کرتے ہیں کالج میں جہاں بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں وہیں ایک لڑکا اور لڑکی دونوں بہت ہی ہونہار ہیں بہت ذہین ہیں اور دونوں میں گہری دوستی بھی ہوجاتی ہے لڑکی کمزور گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔

اور لڑکا کافی مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے وہ لڑکی کی فیس بھی جمع کرتا ہے وقتاً فوقتاً اسے سیر وتفریح بھی کراتا ہے اس کی ضروریات کے سازوسامان کی خریداری بھی کراتا ہے امتحان میں دونوں ٹاپ پوزیشن لاتے ہیں لڑکی کو پرایوئٹ جاب مل جاتی ہے اور لڑکا جاب کی تلاش میں مصروف رہتاہے ابھی تک دونوں ساتھ رہتے ہیں جاب نہ ملنے کی وجہ سے لڑکے کی مالی حالت کچھ کمزور ہوجاتی ہے ایک دن دونوں سیر وتفریح کے لئے نکلے اور ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ لڑکی بولتی ہے کہ تمہیں ابھی تک جاب نہیں ملی اور مجھے مل گئی مجھے ہرماہ اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے ایک تم ہو کہ اپنے گھر والوں کے بھی بوجھ بنے ہوئے ہو اور میری زندگی میں بھی مصیبت بنے ہوئے ہو تم میرے ساتھ چلتے ہو تو میری توہین ہوتی ہے میں ایک کمپنی کی مینیجر ہوں اب تمہارے ساتھ میں نہیں رہ سکتی لڑکا بولتا ہے کہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ہم بچپن سے ساتھ رہے ہیں تمہارا وقت خراب تھا تو میں تمہیں سہارا دیتا تھا تمہاری ہر پریشانیوں میں میں نے ساتھ دیا ہے لڑکی بولتی ہے کہ پیسہ سب کچھ ہے آج تم ایک گنوار کے برابر ہو تم غریبی کی طرف بڑھ رہے ہو اور تمہیں جاب بھی نہیں ملنے والی چھوڑو میرا ہاتھ لڑکی نے ہاتھ جھٹک دیا اور بیچ راستے میں لڑکے کا ساتھ چھوڑ کر کمپنی کی آفس چلی گئ اسے بیتے لمحوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ گھمنڈ میں چور تھی کمپنی میں بھی چھوٹے چھوٹے ملازمین کے ساتھ بدتمیزی کرنا اس کا معمول تھا وہ غریبوں کا خوب مذاق اڑاتی تھی ، کسی کا نارمل لباس دیکھتی تو خوب ہنستی اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں کرتی آخر کار ایک دن ایسا بھی آیا کہ صبح کو دولت و منصب کے نشے چور ہوکر آفس پہنچتی ہے ابھی اپنی آفس میں بیٹھی ہی تھی کہ سیکورٹی گارڈ آتا ہے اور کہتا ہے کہ میڈم آپ کو بوس نے بلایا ہے یہ اپنی کرسی سے اٹھتی ہے اور بوس کی آفس پہنچ کر ابھی دروازہ کھولتی ہے کہ پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے چہرہ فق پڑجاتا ہے کیا دیکھتی ہے کہ جس لڑکے کو جاب ملنے میں تاخیر ہونے کی صورت ساتھ چھوڑ دیا ، جس کی مجبوری کا مذاق اڑایا آج وہی لڑکا اس آفس میں کمپنی کا بوس ہے یہ مکار اور گھمنڈی لڑکی اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارا ساتھ چھوڑ نے کے بعد میں بہت پچھتائی مجھے بہت افسوس ہوا میں نے آپ سے ملاقات کرنا چاہا اور عنقریب میں آپ سے ملنے ہی ملی تھی مگر بوس نے کہا کہ تو جھوٹ بول رہی ہو اگر ملنا چاہتی تو فون کرتی اور میسیج کرتی مگر سچ یہ ہے کہ تم ڈرامہ کررہی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تم سے اونچی پوسٹ پر فائز ہوگیا بھلے ہی تم اس کمپنی میں ہو لیکن تم سے میرا کوئی تعلق نہیں اور کبھی تعلق بنانے کی کوشش بھی مت کرنا اور کام میں لاپرواہی بھی مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔

دوستی اور محبت میں اداکاری نہیں وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے ، دوستی میں چہرے کو کتاب سمجھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر دوست پریشان ہو تو اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ پریشانی کا عکس چہرے سے ظاہر ہوتا ہے چہرہ ایسا کاغذ ہے کہ اس پر خوشی و غمی دونوں تحریریں ہوتی ہیں اس تحریر کو دیکھنے و پڑھنے اور سمجھنے کے لئے دولت و شہرت کی ضرورت نہیں سچے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے جب دوستی کی راہ میں سچا جذبہ ہوگا تو پاکیزہ محبت ہوگی اور محبت سچی و پاکیزہ ہی ہونی چاہئے،، ہوس ، مطلب ، مفاد ، لالچ پر مبنی نہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں تو انہیں نعمتوں میں سے سچا دوست بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے ۔

جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
javedbharti.blogspot.com

اس کو بھی پڑھیں ۘ

Related Posts

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

منشیات کا بڑھتا کاروبار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ پوری دنیا میں نشہ آور اشیاء کی خریدو فروخت، شراب اور اس جیسے دوسرے مشروبات کو چھوڑ کر…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *