ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
9642571721
لیجئے قربانی کی عید آگئی کیونکہ قربانی ابراہیم ؑ کی سنّت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیایہی وہ ایک بکرا کاٹنے کی سنّت ہے جس کے بعد آپ ؑ کو دنیا کی امامت یعنی لیڈرشپ عطا کردی گئی۔ وَاِذِابتَلٰی اِبراہیمَ ربّہ۔۔۔۔۔۔ ؟ جی ہاں یہی وہ قربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے امّتِ ابراہیمی سے وعدہ کیا ہے کہ جو بھی ایسی قربانی پیش کرے گا اس کو دنیا کی امامت عطا کی جائیگی۔اور رسول اللہ ﷺ نے خوشخبری دی کہ خون کا خطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کی قربانی اللہ کے نزدیک قبول ہوجائیگی، ہر بال کے بدلے نیکیاں نامۂ اعمال میں کریڈٹ کردی جائینگی۔ یہ قربانی دوزخ کی آگ کے سامنے آڑ بن جائیگی۔اللہ کے نزدیک کوئی روپیہ اتنا عزیز نہ ہوگا جتنا اس قربانی پر خرچ ہونے والا روپیہ ہوگا۔ لیکن دنیا کی امامت یعنی لیڈرشِپ تو دور کی بات ہے سنّتِ ابراہیمی قائم کرنے کا اگر کسی نے سوچا بھی تو اُس کو ملک سے نکالنے کے قوانین بن چکے ہیں۔ اتنے لاکھوں جانور قربان کئے جانے کے باوجود کسی کو امامت تو نہیں ملی بلکہ ملّت کی اکثریت آٹو یا ٹیکسی چلانے والے، فقیر، سود اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے، نئی نسل کی اخلاق و کردار سے محرومی پر بے بس، اور ہریجنوں سے بدتر معاشی اور سیاسی حالت سے دوچار ہوچکی ہے۔ جبکہ گلی گلی یہ سنّتِ ابراہیمی قائم ہورہی ہے۔ پھر آخر کون سی کمی رہ گئی ہے اس سنّت کی ادائیگی میں جب کہ ہم نمازوں، روزوں، عمرے، زکوٰۃ و خیرات، داڑھیاں، برقعے، درسِ قرآن، میلاد، وغیرہ پرسختی سے عمل پیرا ہیں؟مدرسوں اور مسجدوں کی تعمیرمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بزنس مین پیدا ہورہے ہیں جو امّت کے مسائل پر ایک ایک گھنٹہ پورے درد کے ساتھ شعلہ بیانی کرسکتے ہیں۔ خدمتِ خلق کرنے والے ایکٹیوسٹ بھی بڑھتے جارہے ہیں جو بھوکوں کے لئے کھانے، راشن کِٹ، غریب بچیوں کی شادیوں، کلینِک اور اسکولوں کا انتظام کررہے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ وہ سنّت ابراہیمی کیا تھی جس کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں لیڈرشِپ تو درکنار کسی اسمبلی، پارلیمنٹ یا کسی بھی سرکاری عمارت میں چپراسی کی بھی نوکری نہیں ملتی؟
ابراہیم ؑ نے جو قربانی دی کس طرح تھی؟ کیا وہ بھی بکرا مارکٹ جاکر بکرے کے دانت، کان، ٹانگیں،اور گوشت کا وزن دیکھ کر قیمت چُکا کر لائے تھے؟کیا وہ بیل کو سجاکر لائے تھے؟ کیا انہوں نے بھی قصّاب کا انتظام اسی طرح کیا تھا جس طرح آج ہم کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے بھی اولڈ سِٹی کی طرح اوجڑی اور خون سے سڑک کو گندا کیا تھا؟ کیا انہوں نے بھی مُنڈی پائے جلا کر دھنویں سے پورے محلے کی فضا کو آلودہ کیا تھا؟
یہ جھمیلے دیکھ کر کچھ دانشور پیدا ہوجاتے ہیں جو دشمنانِ اسلام کے فلسفے پڑھ کر احساسِ کمتری اور مرعوبیت کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں کہ بجائے جانوروں کو ہلاک کرنے کے یہی پیسہ اگر غریبوں کی مدد کے کام آئے تو انسانیت کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر منکرینِ حدیث ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے گھر کی شادیوں، برتھ ڈے، اور افطار پارٹیوں کے وقت کبھی نہ کوئی غریب یاد آتا ہے نہ انسانیت۔ اگر یہ نادان ایک بار قربانی کے اصل فلسفے کو سمجھ لیتے تو انہیں پتہ چلتا کہ قربانی کا فلسفہ پوری دنیا میں انصاف، سچائی اور حلال کمائی رائج کردینے والا فلسفہ ہے۔
قربانی کا فلسفہ کیا ہے؟
قربانی کا وہ راز جس کے بعد اللہ تعالیٰ دنیا میں امامت یعنی لیڈرشپ عطا کرتا ہے، وہ قربانی کی نیّت میں پوشیدہ ہے۔ یہ عربی زبان میںبغیر سمجھے پڑھی جانے والی وہ نیت نہیں جو چُھری پھیرتے وقت پڑھی یا پڑھائی جاتی ہے، بلکہ وہ نیت ہے جو چُھری پھیرتے وقت ابراہیم ؑ کے دل میں تھی، نیّت کہتے اسی کو ہیں جو بندے کے دل میں چھپی ہوئی بات ہے، جس کی خبر منکرنکیر کو بھی نہیں ہوتی بلکہ راست اللہ کو ہوتی ہے، یہ اللہ اور بندے کے بیچ میںایک راز ہے جس سے صرف اللہ واقف ہے، یہی وہ نیت ہے جو بندے کے ہر عمل میں جھلکتی ہے۔ نیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی اس آیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
لَن یَنالَ اللہَ لُحُومُھا وَلَا دِماَئُ ھَا وَلٰلِنِ یَنالُہُ التَّقویٰ مِنکُم۔نہیں پہنچتا اللہ کو قربانی کا گوشت یا خون مگر پہنچتا ہے تو اس کا تقویٰ۔
یہ تقویٰ کیا ہے؟ ہر عبادت کی نیت کا تقویٰ الگ ہوتا ہے، نماز کا تقویٰ یہ ہے کہ ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکریعنی فواحش اور منکرات کا زندگی سے خاتمہ۔ اسی طرح روزے کی نیت کا تقویٰ یہ ہے کہ آدمی کے نفس کی تربیت ہوجائے، اسی طرح قربانی کا تقویٰ کیا جو اس کی نیت میں پوشیدہ ہے، اس کو سمجھے بغیر لاکھوں جانور ذبح کرلیں ثواب تو شائد مل جائے لیکن یہ قربانی سنّت ابراہیمی ہرگز نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ نیت کوئی نہیں سمجھاتا۔ سمجھاتا ہے تو مسائل فقہ، چرمِ قربانی کا عطیہ، دور دراز کے غریب علاقوں میں جاکر گوشت تقسیم کرنے کی اسکیمیں اور اس کا ثواب۔ مسجدوں میں اور سوشیل میڈیا پر ناخن اور بال کٹوالینے کی تاریخیں، بکرے کی سینگ، ٹانگ اور دانت کیسے ہوں، مسلسل بیان کئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے جو قربانی کا تصور پیدا ہوجاتا ہے وہ اتنا محدود ہوتا ہے کہ غیرمسلموں کے تیوہاروں کی طرح قربانی بھی ایک ہنگامہ آرائی کی عید ہوجاتی ہے، بندہ بکروں کی تلاش، قیمت کے چُکانے، گھر لانے، پھر قصابوں کی تلاش کے بعد قربانی کرکے ایک عظیم عبادت کا تصور کرلیتا ہے اور بھیجہ، کلیجی اور گردے کا لذیذ ناشتہ کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ سنت ابراہیمی پوری ہوگئی۔
حضرت ابراہیم کے دل میں جو نیت تھی، اگر اُس نیت کے بغیر قربانی ہوگی تو نہ صرف سنّت ادا نہیں ہوگی بلکہ دنیا میں اس عبادت کا مذاق بھی اڑے گا، بکروں کے مسلمان چھوٹے تاجر، گھروں تک پہنچانے والے ڈرائیور تو تھوڑا بہت کمالیں گے لیکن اصل کمائی تودھرم کے نام پر جانوروںکی لاریاں روک کربھتّہ وصول کرنے والوں، مانڈولی کروانے والے پولیس والوں اور فارم ہاوز س کے مالکان کی ہوگی جو پہلے ہی غنڈوں کو بتادیتے ہیں کب کون سی لاری نکلنے والی ہے۔
اب جانیئے کہ حضرتِ ابراہیم کی نیت کیا تھی۔ جب آپ نے چھری ہاتھ میں لی، سامنے بکرا نہیں تھا بلکہ جگر کا ٹکڑا یعنی بیٹا تھا، جس کی قربانی آپؑ دینے جارہے تھے۔ قربانی کرنے والا ہر باپ اِس بات کو سمجھے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے گلے پر چُھری پھیر سکتا ہے؟ لیکن ابراہیم ؑ نے یہ کیا اور بتایا کہ چھری پھیرتے وقت نیت کیا ہونی چاہئے۔ وہ نیت یہ تھی کہ ’’ائے اللہ، تیرے حکم کے آگے میں اولاد کو بھی ذبح کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر‘‘۔ حقیقی سنتِ ابراہیمی تو یہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کے گلے پر چھری پھیریں۔ قربانی کہتے اسی کو ہیں جب بندہ اپنی سب سے عزیز ترین چیز قربان کرے۔ ’’لَن تَنَال ُ البِرَّ حَتّیٰ تُنفِقُوا مَا تُحِبُّون‘‘ تم نیکی کو پا ہی نہیں سکتے جب تک اپنی سب سے زیادہ عزیز چیز کو قربان نہ کرو۔ آدمی کے لئے اولاد سے زیادہ دنیا میں کوئی اور شئے عزیز ترین نہیں ہوسکتی۔ اولاد کے مستقبل کے لئے آدمی گھر، ملک، ماں باپ بھائی بہن بیوی کو چھوڑ کر NRIs کی طرح غیرملکوں میں دھکے کھاتا ہے۔ اولاد اگر بیمار ہوجائے تو اس کے علاج کے لئے جتنا کمایا سب کچھ لٹا سکتا ہے۔ وہ اللہ سے اپنی عمر دے کر اولاد کی عمر مانگ لیتا ہے۔اولاد کے مستقبل کی خاطر آدمی اللہ سے بھی بغاوت کرتا ہے اور ان کے لئے رشوت جھوٹ دھوکہ ، قتل یا زمینوں پر اگر قبضہ کرنا پڑے تو وہ بھی کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم بھی ایک باپ تھے، ان کے لئے بھی اسماعیل اتنے ہی عزیز تھے جتنی عزیز ہم کو ہماری اولاد ہے۔ لیکن جب اللہ کی رضا کی بات آئے گی تو یہیں آزمائش ہوگی کہ بندہ اللہ کے حکم کو قربان کرتا ہے یا اولاد کو۔ اسی کی آزمائش کا نام قربانی ہے، اور حضرت ابراہیم ؑ کو اسی قربانی کے بعد نہ صرف دنیا تمام کا امام یعنی لیڈر بنادیا گیا بلکہ سارے پیغمبر انہی کی نسل سے پیدا ہوئے۔
آج ہم سے اولاد کی قربانی نہیں مانگی جارہی ہے بلکہ اولاد کے لئے اللہ کو ناراض کرنے والے ہر کام کی قربانی مانگی جارہی ہے۔ چھری پھیرتے وقت جو اصل نیت تھی وہ اگر بندے کے دل میں بھی مصمّم ارادے کے ساتھ موجود نہ ہو تو یہ قربانی سنت ابراہیمی ہرگز نہیں ہوگی۔ بندہ چھری پھیرنے سے پہلے یہ اچھی طرح فیصلہ کرلے کہ آج کے بعد اللہ کے حکم کے آگے جھوٹ، رشوت، چوری، دھوکہ، ظلم، ذخیرہ اندوزی، قبضے، وہ سب کچھ چھوڑدوں گا جو کہ میری بیٹیوں کی شادیوں یا بیٹوں کو سیٹ کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ بیٹے پر چھری مت پھیریئے، بلکہ ان کے پیٹوں میں جانے والے حرام کے نوالوں پر چھری پھیریئے۔ جس آمدنی سے بڑے بڑے داماد خریدے جاتے ہیں، ان دامادوں کے حرص پر چھری پھیریئے، جس آمدنی سے شاندار گھر، کاریں، دعوتیں، اسٹیٹس، اور عیش خریدے جاسکتے ہیں، اس آمدنی پر چھری پھیریئے۔ تب یہ گوشت جس جس گھر میں پہنچے گا یہ پیغام پہنچ جائیگا کہ یہ آدمی اللہ کی رضا کے لئے اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے۔ آج سارے ملک، ساری قومیں اور سارے مذہب ایسے ایک آدمی کے منتظر ہیں، جو اللہ کی رضا خاطر حرام کمائی ، جھوٹ اور تمام چالبازیوں سے پاک ہو۔ صرف ایک بکرے کی قربانی دنیا کے لئے اس بات کا اعلان ہے کہ ایسا امامِ وقت یعنی ابراہیم ؑ کا سچا امّتی آج بھی زندہ ہے۔ ایسی قربانی کرنے والوں کا دنیا اعتبار کرے گی، اپنے فیصلے اسی سے کروائے گی، عوام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار دینے خود آگے بڑھے گی۔ بس یہی ایک نیت کے بغیر لاکھوں جانور ذبح کرنے کی وجہ سے ہمار اعتبار نہ اللہ کی نظر میں رہا اور نہ دنیا کی نظر میں، جس کی وجہ سے ہم آج دنیا کے لئے ایک حدیث میں کی گئی پیشن گوئی کے مطابق وہ لقمۂ تر بن گئے ہیں جس پر ہر قوم ہم پر ہاتھ ڈال رہی ہے، بم اور بلڈوزر ہم پر چلارہی ہے، ہمارا درجہ دوسرے تیسرے کے طفیلی شہریوں کا ہوگیا ہے۔ نہ دنیا کو ہمارا دین گوارا ہے، نہ ہماری کتاب اور نہ ہماری مسجدیں یا مدرسے۔