قربانی کی اصل روح:تقویٰ اور جذبۂ جاں نثاری

تحریر: انیس اقبال
رابطہ: 9304438970

ماہِ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ایثارو قربانی، اطاعت و فرماں برداری اور جاں نثاری سے عبارت ہے۔ یہ وہ عظیم الشان دن ہےجب خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ضعیف العمری میں اپنے نوعمر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالی کی رضا اور خوشنودی کی خاطر قربان کردینے کے لیے قدم اٹھایا۔بیٹا بھی فرماں برداری اور جاں نثاری کا پیکر نکلا۔رضائے الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو قربان کرنے کے لیے پیش کردیا۔یہ وہ نظارہ تھا جس کو دیکھ کر چشم فلک بھی حیران رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کی یہ ’ تسلیم ورضا‘ اس قدر پسند آئی کہ ان کے اس عمل کو ’’ذبح عظیم‘‘ سے تعبیر کیا اور حضرت اسماعیل کو سلامتی کا پروانہ عطا کرتے ہوئے ان کی جگہ قربانی کے لیے دنبہ بھیج دیااور تمام امتوں کے لیے قربانی کرنا فرض قرار دیا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیااور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔‘‘

دوسری جگہ مزید واضح انداز میں فرمایا ’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔‘‘(الحج ۔۳۴)

عید الاضحی کے روز ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جوخواب کے اشارہ ٔ غیبی کو اللہ کا حکم گردانتے ہوئےحضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے پیش کی تھی۔خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اس کی نذر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بھی ذبیح جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ دلوں کا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کو قربانیوںکے گوشت نہیں پہنچتے اورنہ ہی اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔(الحج۔۳۷)

قربانی کرنے کا حکم اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو ان قربانیوں سے کوئی نفع پہنچتاہے۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتابلکہ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تم ہی کو لوٹا دی جاتی ہے۔ تم خود اس کو کھاؤ اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلاؤ۔خدا کوقربانیوں کے خون سے مسرت وشادمانی نہیں ملتی، بلکہ وہ اس تقویٰ اور خلوص اور اس اطاعت اور جذبہ تسلیم ورضا سے خوش ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ قربانی کا بظاہر مقصد توجانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ ،للٰہیت اور اخلاص ہے۔

لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے دورمیں قربانی سنت ابراہیمی کی بجائے ریا ونمو د کی قربانی بن چکی ہے۔ لوگ اخلاص و تقویٰ کی بجائے دکھاوے اورنمائش کے لیے قربانی کرنے لگے ہیں۔ اپنی دولت کا رعب جمانے ، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ لوگ اخلاص وتقوی سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔سینہ چوڑا کرکے بڑے فخرسے بتاتے ہیں کہ میںنے اتنے مہنگے جانور کی قربانی کی۔دوسرے کا جانور کمزور ہونے پر ان کی تذلیل کرتے اور ان کو نیچا دکھاتے ہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا انحصار مہنگے یا اعلیٰ نسل کے جانوروں کے ذبح اور ریاکاری پر نہیں بلکہ تقویٰ اورخلوص و للٰہیت پر ہوتا ہے اور جہاں اخلاص نہ ہو وہاں قبولیت بھی نہیں ہوتی۔

قربانی کااصل مقصد جانور ذبح کرنا، خون، بہانا،گوشت کھانااور نمائش کرنا ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول اور پروردگان کے واضح حکم کی تعمیل ہے اور بس۔ اگر اسی نیک جذبے اور خلوص نیت سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں شرفِ قبولیت کو پہنچتی ہے اور اگراس میں ذرہ برابر بھی ریاکاری اور نمود ونمائش کا عنصر شامل ہوجائے یالوگوں پراپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی ثواب سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کاخون یا گوشت نہیں بلکہ قربانی دینے والے انسان کی نیت مطلوب ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب کا حاصل کیا جاتا ہے۔

لہٰذا قربانی کا جانور لیتے وقت سے لے کر اسے اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت یہی خیال ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس قربانی کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کیونکہ جو جانور اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہو جاتی ہے اس کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کو عید الاضحی کے دن قربانی سے بڑھ کر کوئی بھی عمل زیادہ محبوب نہیں ہوتا ہے ۔بے شک روزِ قیامت قربانی کے جانور کا ثواب، سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت ملے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جاتی ہے لہٰذا بخوشی قربانی کیا کرو۔‘‘(سنن ترمذی)

اسی حدیث مبارکہ میں ان نام نہاد روشن خیال لوگوں کے اعتراض کا جواب بھی بالکل واضح انداز میں موجود ہے جو یہ کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کو بہکاتے اور منشائےخداوندی کے خلاف ورغلاتے ہیں کہ قربانی پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے اسی رقم سے اگر کسی غریب کی مدد کردی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی نہیں ہےکہ آپ کے اردگرد ، محلے اورقرب و جوار میں کوئی غریب آدمی ہو اور آپ اس کی مدد کرنے کی بجائے بھار ی رقم سے قربانی کا جانور خرید لیں۔آج کے کورونا کے دور میں اس طرح کی بے جا دلیل کے ساتھ قربانی نہ کرنے پر اصرار کرنے والے کافی تعداد میں لوگ آپ کو مل جائیں گے۔

قربانی جیسی مقدس عبادت پر اس بے جا اعتراض کے متعلق عرض یہ ہے کہ جس ذات بابرکات نے امت مسلمہ کے لیے قربانی کو لازم قرار دیا ہے، اسی خالق کائنات نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکوۃ بھی فرض کی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر صدقات وخیرات کی بھی ترغیب دلائی ہے۔قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جابجا اہل ایمان کوفقرا ومساکین اور ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے کی نہ صرف تاکید کی ہےبلکہ ایسا نہ کرنے والوں کو وعید بھی سنائی ہے۔ اس لیے زکوۃ اور دیگر صدقات کی مد سے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں شادی بیاہ ،یوم پیدائش، شادی کی سال گرہ اور دیگر تقریبات اور فنکشن پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ محض نمو دو نمائش کے لیے قیمتی ملبوسات زیبِ تن کیے جاتے ہیں۔ روزانہ بہت سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ ان تمام فضول کاموں پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ مگر پھربھی ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ ان تمام فضول رسم و رواج اور تفریحات پر جب بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں بلکہ ضائع کی جاتی ہے تب ان لوگوں کو نہ تو غریب کی بیٹی نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ضرورتمند دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام فضولیات پر اعتراض کرنے کی بجائے محض قربانی کو ہدفِ تنقید بنانا دین سے دور ی اور اسلامی تعلیمات سے بیزاری کا نتیجہ ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قربانی کرنے میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے۔ ہمارے معاشرے میںبے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کی برکت سے سال میںکم ازکم ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں گاؤں دیہات میں بہت سے غریب لوگ سال بھر جانوراسی امید سے پالتے ہیں کہ عیدالاضحی پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔جس سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کریں گے۔ قربانی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔مویشی پروری روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت کو دیکھتے ہوئے حکومت غریبوں کو مویشی پروری کے لیے مالی امداد فراہم کررہی ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیںفلاحی اداروں، مدارس اوردیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کام آتی ہیں۔
دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے پیش ِنظر فقط رضائے الہی کا حصو ل ہوتا ہے اور وہ مالک کے حکم کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ جب اللہ تعالی جو سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اورمالک بھی اورجس نے پوری مخلوق کو رزق دینے کا ذمہ لے رکھا ہے اس کی رضا جانوروں کی قربانی میں ہے تو ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکمِ خداوندی کے سامنے اپنی تاویلات اورتوجیہات پیش کرکے غریبوں کا ہمدرد، معاون اورغمگسار بنتا پھرے۔اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سنتِ تسلیم ورضا پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

Leave a Comment