عارف عزیز (بھوپال)
نہایت خوشی وفرحت، خوش بختی وامید کے ساتھ دنیا کے مسلمان ماہ رمضان المبارک کا استقبال کررہے ہیں۔ ہماری تمنا ہے کہ یہ ماہ مبارک سبھی کے لیے روحانی اور مادّی کامیابی کا باعث بنے۔ یہ وہ ماہ ہے جس میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآنِ کریم نازل ہوا، اِس کتاب مقدس کی صرف تلاوت ہی کافی نہیں، اِس کے معنی ومطلب کو سمجھ کر اُن پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے، اِسی طرح روزہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنی گھڑیوں سے حساب لگاکر کھانے پینے یا دوسری نفسانی خواہشات سے رُک جائیں، اِس کا مقصد یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے کی عام زندگی شریعت کے تابع ہوجائے، جو عمل کرنے کے حکم دیئے گئے یا جن سے روکا گیا ہے، اُس کا مظاہرہ قول وعمل سے ہونے لگے یعنی ظاہر وباطن میں تضاد نہ رہے اور ساری توجہات کا مرکز ’ایک ہوجائے‘ اِس کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ ماہِ مبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اپنے اعمال پر نظرثانی کریں، اپنی سرگرمیوں کا جائزہ لیں کہ اُن میں کتنی تبدیلی آئی ہے یا وہ پرانے طور طریقوں پر ہی جاری ہیں، اگر خدانخواستہ اِس میں کمی وکوتاہی نظر آئے تو اُن کو درست کرنے کی ہمیں فکر ہو، دوسروں کے ساتھ ہم اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں، معاشرہ کے سبھی افراد کے ساتھ ہمارے رشتے خوشگوار ہوں، اخلاق و سچائی کا ہم مظاہرہ کریں، الفت ومحبت کو اپنا شیوہ بنائیں۔ تبھی ہمارے روزے معاشرہ پر خوشگوار اثرات قائم کریں گے۔رمضان المبارک اور اُس کے روزوں کے بارے میں امام غزالی کا فرمانا ہے کہ روزے کے دو درجات ہیں، عوام کا روزہ اور خواص کا روزہ ۔ عوام کا روزہ تو یہ ہے کہ فرائض وواجبات کی پابندی کی جائے یعنی کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے رُک جائیں، خواص کا روزہ یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی برائیوں اور نامناسب اعمال سے باز رہیں، مثال کے طور پر اپنے نگاہوں کو پست کرلیں، زبانوں کی حفاظت کرلیں، بری باتوں کو سننے سے بھی اعراض کریں کیونکہ جن باتوں کا کہنا یا زبان سے ادا کرنا منع ہے، اُن کے سننے پر کان لگانا حرام ہے، اِس کے ساتھ اصراف وفضول خرچی سے بھی بچیں ۔ امام غزالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ افطار کے وقت حلال غذاؤں کا بکثرت استعمال بھی نامناسب ہے، خاص طور پر اِس قدر کہ شکم سیری سے عبادت میں گرانی پیدا ہوجائے، اِس لئے روزہ دار کو رمضان کی راتوں میں اُتنا ہی کھانا چاہئے کہ جو معمول کے مطابق ہو۔ اُس سے زیادہ نہیں۔ اِسی طرح خواص کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ قلبِ انسانی دنیاوی تفکرات سے محفوظ ر ہے اور توجہ آخرت پر مرکوز ہوجائے۔ امام غزالی کے مطابق روزوں کی اقسام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا روزہ بھوک وپیاس کے ذریعہ نفس کو مہذب بنادے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بن کر خشیت الٰہی کا مرکز بن جائے ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ایسا ہی روزہ نصیب فرمائے اور اِس ماہ مبارک کو ہمارے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنادے نیز معاشرہ پر اِس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔