مفتی محمد مرتضی حسن قاسمی
جامعہ اسلامیہ بہارشریف نالندہ
رابطہ: 8271543546
روزہ اللہ تبارک وتعالی کے نزديک انتہائی محبوب ترین عمل ہے۔ اس لئے کہ اس میں صفت الاہیہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالی جس طرح کھانے پینے سے پاک وصاف ہیں اسی طرح انسان اللہ کی اس صفت کا اظہار کرتا ہے، روزہ سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ کھانا پینا بند کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کو یہ عمل اس قدر محبوب ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمام اعمال کا بدلہ فرشتے دیتے ہیں مگر روزہ کا بدلہ میں خود دیتا ہوں۔ روزہ انتہائی نازک ترین عبادت ہے ذراسی بے احتیاطی سے روزہ کی روح نکل جاتی ہے، انسان کے ہر عضو اور جسم کے ہر حصہ کا روزہ ہے، پیٹ کا روزہ جہاں کھانے پینے سے رکنا ہے، وہیں دماغ کا روزہ غلط باتوں کے سوچنے سے رکنا ہے، زبان کا روزہ غیبت جھوٹ اور لہولعب باتوں سے پرہیز کرنا ہے، آنکھوں کا روزہ نامحرم اور غلط چیزوں کے دیکھنے سے رکنا ہے، اور قدموں کا روزہ غلط راہوں کیطرف جانے سے رکنا ہے، الغرض تمام اعضاء بدن تمام لغو وناجائز چیزوں کے تلوث سےمحفوظ رہے تو وہ شخص درحقیقت روزہ کی روح سے سرفراز ہوگیا۔ اس کے برخلاف روزہ اپنی ظاہری شکل وصورت تو اختیار کرسکتا ہے، مگر اپنی روح سے محروم ہوگیا، حدیث شریف میں مذکور ہے: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک اسے پھاڑ نہ ڈالے، یعنی جس طرح آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتاہے، اسی طرح روزہ سے اپنے دشمن شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے، دوسری روایت میں آیا ہے کہ روزہ اللہ کے عذاب سے حفاظت کرتا ہے، ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے، آپ نے فرمایا جھوٹ اور غیبت سے، یہی وجہ ہے کہ آنحضور ﷺ کا فرمان ہے” آپ ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے ایسے روزہ دار ہیں کہ ان کے روزے سوائے بھوک کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کی بیداری کی تکلیف کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوتا یعنی یہ اس صورت میں ہوتی ہے، جب روزہ کی روح نکل جائے اور اسکی روح غیبت اور جھوٹ سے نکل جاتی ہے، اسی طرح دیگر اعضاء انسانی کی بے راہ روی سے بھی روزہ سے روح کا فقدان ہوجاتا ہے۔
امت محمدیہ کیلئے پانچ مخصوص نعمتیں
روزہ اللہ تعالی کے نزدیک ایسا محبوب ترین عمل ہے جس میں اللہ تعالی پانچ نعمتیں اس کو ایسی دیں ہیں، جن سے سابقہ امتیں محروم رہیں، حدیث میں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ پہلی امتیں ان سے محروم رہیں۔ ایک یہ کہ ان کی منہ کی بو اللہ کے نزديک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے، دوم یہ کہ ان کے لئے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعاء کرتی رہتی ہیں، سوم یہ کہ ہر روز ان کے لئے جنت آراستہ کیا جاتاہے، پھر اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تمہارے پاس آئیں گے، چہارم یہ کہ اس میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں، وہ رمضان میں ان برایئوں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ جاتے ہیں، پنجم یہ کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے، فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دیجائے۔
یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جو محبت والفت سے تعلق رکھتی ہیں، اللہ تعالی کو امت محمدیہ ﷺ سے ایسی محبت ہے کہ پانچ چیزیں اس کے محبت کے طفیل میں دی گئیں، دیگر انبیاء کی امتیں ان سے محروم رہیں۔دیکھو سب سے پہلے تحفہ دیا گیا کہ روزہ دار کی منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک وعنبر سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس سے زیادہ محبت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کی بو سے انسان کو نفرت ہو وہ بو رب ذوالجلال کے نزدیک مشک عنبر سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اور پھر محبت جوش میں آئی تو روزہ دار کی محبت کو بَر سے بحر تک پھیلادیا اور مچھلیوں کو حکم دیا کہ تم ان کیلئے دعاء مغفرت کرتے رہو۔ یہ محبت ہی کی علامتیں تو ہیں ان کی ثناء خوانی میں مچھلیاں بھی لگی ہوئی ہیں، اور مُحب اور عاشق کا ٹھکانہ اور اس کی منزل جنت ہے، تو حکم ہوا فرشتوں کو کہ روزانہ جنت کی تزئین وآراستہ کیا جائے، اور جنت کو خطاب ہوا کہ عنقریب میرے بندے دنیا کی مشقتوں کو پھینک کر تمہارے پاس راحت وآرام کے لئے آئیں گے۔ اور جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو مُحب چاہتا ہے کہ محبوب دشمنوں سے محفوظ رہے، حاسدوں سے محفوظ رہے، چنانچہ اس ماہ میں تمام سرکش شیاطین جو مسلمان کا سب سے بڑا دشمن ہے، ان کو قید کردیا جاتاہے اور پھر محبت کا تقاضا ہے کہ دوست نے ایک ماہ تک محنت وریاضت کی ہے۔عبادت بدنیہ عبادت مالیہ میں مشغول رہا ہے تو اس کو اجر بھی دے دیا جائے۔ چنانچہ رمضان کی آخری رات میں تمام کی مغفرت کردی جاتی ہے جہنم سے آزادی کے پروانہ دے دئے جاتے ہیں تاکہ خوشی بخوشی اگلی صبح کو دوگانہ شکریہ میں ادا کریں۔