رضوان حسین مرکزی البرکات علی گڑھ
2025 یقیناً ہماری زندگی کے لیے ایک نیا سال ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ایک مزید نعمت ہے کیونکہ اس نے ہمیں 2025 گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ لہذا، اس نعمت پر شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: “اگر تم میری نعمت کا شکریہ ادا کرو گے تو میں اسے اور زیادہ برکت اور نعمت والا بنا دوں گا۔” تو اگر ہمیں خوشی منانی ہے تو اس بنیاد پر منا سکتے ہیں کہ ایک اور نیا سال ہماری زندگی کو نیک اعمال اور اچھے کردار کے ساتھ گزارنے کے لیے ملا ہے، نہ کہ صرف اس بنیاد پر کہ محض ایک نیا سال آیا ہے۔
ورنہ حقیقت دیکھو تو کسی کہنے والے نے کہا ہے: “اک اور اینٹ گر گئی دیوارِ حیات سے نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک ہو۔”
معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ اس موقع پر 31 دسمبر کی رات مختلف طرح کی خرافات انجام دی جاتی ہیں اور فضول خرچی کی جاتی ہے۔ لوگ شراب نوشی، آتش بازی، اور دیگر برے اعمال میں ملوث ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ گناہ کے سوا کچھ نہیں کماتے۔ مزید برآں، وہ اس پر اپنا مال، وقت اور توانائی بھی ضائع کرتے ہیں۔
معاشرتی برائیاں
نئے سال کے موقع پر ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی خرافات درج ذیل ہیں
1. فضول خرچی
لوگ نئی سال کی پارٹیاں کرتے ہیں، شور و غوغا مچاتے ہیں اور محلے و بستیوں میں چیخ و پکار کرکے دوسروں کو پریشان کرتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے غیر ضروری اشیاء پر پیسہ خرچ کرتے ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے۔
2. آتش بازی
اس موقع پر پٹاخے اور آتش بازی کے سامان خریدے جاتے ہیں، جنہیں سرِ عام چلایا جاتا ہے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
3. ڈھول باجا اور گانا بجانا:
گانے بجانے اور ناچنے جیسی سرگرمیوں میں لوگ اپنا وقت اور توانائی ضائع کرتے ہیں، جبکہ اس وقت کو کسی مثبت عمل میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔
4. بے شرمی اور بے حیائی
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل سماجی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔
5. نشہ آور اشیاء کا استعمال:
شراب نوشی، جوا، اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑھ جاتا ہے، جو نہ صرف گناہ ہیں بلکہ انسان کی زندگی کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
نیک اعمال کی طرف توجہ
ان تمام برے کاموں سے بچتے ہوئے نئے سال کے موقع پر ہمیں درج ذیل نیک اعمال کرنے چاہئیں:
1. وقت کی منصوبہ بندی:
انسان کو اپنے وقت کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اس کو اچھے کام میں لگانا چاہیے، برے کاموں میں لگانے سے بچائیں کیونکہ برے کاموں میں لگانے سے سوائے اپنے وقت کو برباد کرنے کے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔
2. تعلیم اور نئی مہارتوں کا حصول:
انسان کو اپنی زندگی کے ہر دن کو نیا دن سمجھنا چاہیے، اسی طرح ہر مہینے کو نیا مہینہ اور ہر سال کو نیا سال سمجھنا چاہیے اور اسی کے پیش نظر اپنی زندگی کے اوقات میں تعلیم اور مہارتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ انسان تعلیم سے ہی انسان بنتا ہے۔
3. صحت مند طرز زندگی:
صحت بہت ضروری ہے، ہر موڑ پر صحت کام آتی ہے۔ اس لیے تعلیم ہو یا ذریعہ معاش، ہمیں ہر حال میں اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اگر صحت نہیں ہے تو چھوٹے سے چھوٹا کام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
4. غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد:
چاہے اسلامی تہوار ہو یا نیا سال یا کوئی اور فنکشن، ہمیں ہمیشہ اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے۔ فضول خرچی کی بجائے اپنے پیسے کو اچھی جگہ پر خرچ کرنا چاہیے۔
5. ماحولیاتی تحفظ
حتی الامکان اپنے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کریں کیونکہ انسان کی زندگی میں ایک بہت بڑا اثر ماحول کا ہوتا ہے۔ حدیث رسول ہے کہ صحبت اثر کرتی ہے، اس لیے ہمیں اچھے ساتھیوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور ہر جگہ اچھے ساتھیوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔
6. تعلقات میں بہتری:
زندگی میں سماجی تعلقات کا بھی بہت اہم حصہ ہے۔ ہمیں اپنے گھر والوں، محلے والوں، رشتہ داروں، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور تعلقات کو مضبوط رکھنا چاہیے کیونکہ برے وقت میں ہمارے قریبی لوگ ہی ہماری مدد کرتے ہیں۔
7. اخلاقی اور روحانی ترقی
جب ہم ان ساری باتوں کا خیال رکھتے ہیں، تعلقات کو مضبوط رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے حق کو ادا کرتے ہیں، تو ہماری اخلاقی ترقی ہوتی ہے اور ساتھ ہی روحانی ترقی بھی پروان چڑھتی ہے۔ اس سے ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے۔
8. مالی منصوبہ بندی اور بچت:
جب آپ مال کمائیں تو سب سے پہلے اس میں سے ایک حصے کو بچا لیں جو آپ کے مستقبل کے لیے کام آئے۔ باقی پیسے سے اپنی ضروریات پوری کریں اور فضول خرچی سے بچیں۔
9. عبادات میں بہتری:
ہمیں اپنی زندگی میں ہر وقت اللہ اور اس کے رسول کو یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی، تاکہ ہم اللہ کی یاد میں رہیں۔
10. معاف کرنے اور معافی مانگنے کی عادت:
ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ جب انسان ایک دوسرے کو معاف کرتا ہے تو اس کے دل میں نفرت اور کینہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں جو معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔
نتیجہ
ہم سب کو چاہیے کہ نئے سال میں داخل ہونے سے پہلے اپنے ماضی کے سال کا محاسبہ کریں، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگیں اور عزم کریں کہ آئندہ سال ان غلطیوں کو دہرانے سے بچیں گے۔ منفی خیالات کو نکال کر مثبت سوچ اپنائیں، کیونکہ منفی خیالات انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں