ننھی بچی، اسکول اور والدین

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

آئیے! آپ کو اولاد کی تربیت کے سلسلے میں والدین کی مجرمانہ غفلت کا ایک واقعہ سناتا ہوں؛ میرے ایک مقتدی ہیں،ادھیڑ عمر کے ہیں، نمازی ہیں اور بظاہر دیندار ہیں حالانکہ چہرا صفا چٹ ہے ؛ کبھی کبھی فجر کے بعد میرے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں، مسلمانوں کی زبوں حالی اور دین و شریعت سے دوری پر بڑے درد انگیز انداز میں اظہارِ غم کرتے ہیں اور قوم و ملت کے لئے کچھ کرنے کے جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ میں ان کی باتوں سے بڑا متأثر تھا اور سوچتا تھا کہ موقع آنے پر اس سے کوئی بڑا کام لیا جائے گا، لیکن یہ خیال خیال ہی رہ گیا ۔

:امامت کا فائدہ
گزشتہ چند ایام میں ان کے ایسے کارنامے سامنے آئے کہ میرا سارا بھرم ٹوٹ گیا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا نمازوں کے پابند اور دیندار حضرات بھی قول وعمل میں اس قدر متضاد ہوتے ہیں؟ امامت میں جڑنے کا سب سے بڑا فائدہ جو مجھے محسوس ہوا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کے صحیح احوال سے واقفیت ہوئ اور معلوم ہوا کہ مسلمان معاملات و معاشرت میں کس قدر پستی میں گرے ہوئے ہیں اور دین کے تعلق سے کس قدر لاپرواہ ہیں؟ ورنہ مدرسہ کی چہار دیواریوں میں رہ کر اتنا اندازہ نہیں تھا، مدرسہ کے اندر جب سنتے تھے کہ مسلمانوں کے دینی حالات اچھے نہیں ہیں تو سوچتے تھے کہ ہوگی تھوڑی بہت خرابی مگر جب سے بلا واسطہ ان سے سابقہ پڑا ہے تو صحیح صورت حال سے واقفیت ہوئ اور یہ اندازہ ہوا کہ بڑے پیمانے پر اصلاح کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔

معمول کے مطابق موصوف ایک دن فجر کے بعد میرے پاس آئے اور فلسطین کے حالات کا تذکرہ کرنے لگے مگر خلاف معمول چند ہی منٹ بعد جانے لگے؛ میں نے پوچھا، خیریت تو ہے، آج جلدی جا رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ بچی کو اسکول چھوڑنے اوکھلا جانا ہے؛ میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی دور (پرانی دہلی سے اوکھلا تقریباً پندرہ کیلو میٹر دور ہے) کیوں داخلہ کروایا؟ آس پاس بھی اچھے اور نامی گرامی اسکول ہیں، وہاں کیوں نہیں کرایا؟ انہوں نے بتایا کہ سسرال وہیں ہے، سسرال کے بچے وہیں پڑھتے ہیں اور اہلیہ کی خواہش ہے کہ میری بچی وہیں پڑھے ۔

:اسکول، بچی کی عمر اور فیس
میں نے ان سے اسکول، بچی کی عمر اور فیس وغیرہ کے متعلق تفصیلات پوچھی تو پہلے جھجھکے،پھر یہ کہتے ہوئے صرف اسکول کا نام (نام میں بھول گیا) بتانے پر اکتفاء کیا کہ کیا کریں مولانا! اچھے اسکول میں نہیں پڑھائیں گے تو مستقبل خراب ہوگا؛ میرے ایک دوست اوکھلا کے ایک اسکول میں پڑھاتے ہیں، میں نے ان سے نام بتا کر اسکول کی تفصیلی معلومات حاصل کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بالکل ابتدائی فیس ماہانہ انیس ہزار ہے، باقی سالانہ چارج اور داخلہ فیس وغیرہ الگ؛ اسکول کا پورا نظم و نسق ہندوانہ ہے، یوگا اور سوریہ نمسکار وغیرہ لازم ہے، مخلوط درسگاہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہندو مت کی علامت کے علاوہ کسی اور مذہبی علامت کے ساتھ اسکول میں داخلہ ممنوع ہے اور اس کے ملک بھر میں ستر سے زائد شاخیں ہیں ۔

ذرا تصور کریں کہ کہ ساڑھے تین سال کی عمر سے جو بچی بارہویں تک اس کفریہ ماحول میں پڑھے گی تو کیا وہ دین بیزار نہیں ہوگی؟ اور کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ کل کو وہ اسلام کی چہار دیواری پھاند کر کفر کے سایہ میں چلی جائے؟ میں نے انہیں بلا کر سمجھایا تو اس پر اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا اور برجستہ بولے کہ میری بیوی بڑی دیندار اور نمازی ہے، وہ اسے کنٹرول کر لے گی اور گھر میں دینی تربیت کر دے گی؛ مجھے غصہ بہت آیا مگر کف افسوس مل کر رہ گیا اور اس سوچ میں گھنٹوں کھویا رہا کہ اس قوم کی اصلاح کیوں کر ہو پائے گی؟ جسے غلطی کا احساس ہی نہ ہو؛ موصوف کے ایک دو اور کارنامے حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں، جس نے ان کے ظاہر پر ڈھونگ کا مہر ثبت کر دیا ۔

اسی قسم کے غفلت شعار والدین کی بچیاں جب غلط قدم اٹھاتی ہیں تو سر پیٹتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ماحول خراب ہے، خود اپنی کوتاہی پر نگاہ نہیں ڈالتے ہیں؛ میری معلومات میں اس قسم کے کئ ایسے واقعات ہیں ، جس میں والدین تو خود دین دار رہے مگر بچوں کی دینی تربیت نہیں کی، جس کا نتیجہ ہوا کہ وہ والدین رسوا ہوئے؛ ان واقعات کے تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ مشترکہ غور کریں کہ وہ کیا لائحہ عمل ہو؟ جس سے اس پر قابو پایا جا سکے، اللہ ہمیں نیک توفیق دے ۔

Leave a Comment