تنہائی کا شکار بزرگوں کی آواز کون سنے گا؟

مصنف: قاری اسحاق گورا

ہندوستان میں بزرگوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کے مسائل کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ بات کسی بھی معاشرتی ترقی کی معیاری علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کیسے کرتا ہے۔ اگرچہ ملک نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، پھر بھی بنیادی مسائل، جیسے مالی مشکلات، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، اور تنہائی، آج بھی بزرگوں کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔
ہندوستان میں بہت سے بزرگ افراد ایسے ہیں جن کے پاس مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال خاص طور پر ان لوگوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہوتی ہے جنہوں نے اپنی زندگی بھر محنت کی لیکن مالی بچت نہیں کی۔ پینشن اسکیمیں اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی مدد بعض اوقات ناکافی ہوتی ہے۔ بعض بزرگ افراد کو یہ بھی مشکل پیش آتی ہے کہ وہ موجودہ نظام میں اپنی پینشن حاصل کرنے کے لیے درکار دستاویزات مکمل نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے وہ مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان مالی مشکلات کی وجہ سے وہ اپنی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، دوا، اور دیگر اہم چیزوں کی خریداری میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی زندگی کا معیار کافی حد تک متاثر ہوتا ہے۔

بڑھاپے میں صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں، اور ان مسائل کا حل مہنگی علاج کی صورت میں ہوتا ہے، جو زیادہ تر بزرگ افراد کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں طویل انتظار اور نجی اسپتالوں کی مہنگی فیس ان کے لیے علاج کو مشکل بنا دیتی ہے۔ مزید برآں، بزرگ افراد کو مختلف بیماریوں کے لیے خصوصی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان کے لیے ایسے اسپتال یا کلینک بہت کم ہیں جو خاص طور پر ان کی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کیے گئے ہوں۔ ان بیماریوں میں دل کی بیماری، ذیابیطس، ہڈیاں اور جوڑوں کے مسائل شامل ہیں، جو بزرگوں میں عام ہیں اور ان کے زندگی کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔
بزرگوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ عملے کی بھی کمی ہے، جس کی وجہ سے ان کے علاج میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے بزرگ افراد کے لیے معیاری صحت کی خدمات تک رسائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے پاس نقل و حرکت کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔

اکیلے رہنے کی وجہ سے بزرگ افراد اکثر سماجی تنہائی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کسی فرد کا خاندان دور ہو یا وہ اکیلا رہتا ہو تو یہ صورتحال اس کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ بزرگوں میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کے بڑھنے کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی زندگی میں خوشی اور سکون کی کمی ہو جاتی ہے، جس کا اثر ان کی عمومی زندگی پر پڑتا ہے۔ کئی بار ان کے ساتھ بات کرنے یا وقت گزارنے والا کوئی نہیں ہوتا، جس سے ان کی حالت اور بھی بگڑ جاتی ہے۔ سماجی تنہائی کی وجہ سے بزرگوں کو بعض اوقات خودکشی کے خیالات بھی آ سکتے ہیں۔ یہ ان کے ذہنی اور جذباتی مسائل کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، بزرگوں میں بڑھتی ہوئی تنہائی کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں اور وہ باہر کی دنیا سے منسلک نہیں رہ پاتے۔
خوراک، رہائش، اور دیگر بنیادی ضروریات میں مشکلات کا سامنا بھی بزرگوں کے مسائل میں شامل ہے۔ بعض بزرگ افراد کو اپنی روزمرہ کی زندگی کے لیے مددگار کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے وہ خود سے تمام کام نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ، کئی بزرگ افراد کو اپنی چھت یا رہائش کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آتی ہیں، کیونکہ وہ اکثر مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتے۔ بعض بزرگ تو اپنے گھر کے کرایے یا دیگر ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مسائل بزرگوں کی زندگی کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی بزرگ کے پاس مناسب رہائش نہیں ہو تو وہ بیرونی حالات، جیسے شدید سردی یا گرمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض بزرگ افراد کے پاس خوراک کی کمی ہوتی ہے اور وہ مناسب غذا کے بغیر رہتے ہیں، جس سے ان کی صحت مزید بگڑتی ہے۔
حکومت کو پینشن اسکیموں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ ہر بزرگ شہری تک پہنچ سکے۔ ان اسکیموں کی شرائط کو آسان اور ان تک رسائی کو بہتر بنانا ہوگا۔ ان کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بزرگ افراد بغیر کسی مشکل کے اپنی پینشن اور مالی امداد حاصل کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، غیر سرکاری ادارے اور این جی اوز بھی بزرگوں کی مالی مدد کے لیے پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض ادارے بزرگوں کے لیے ٹرانسپورٹیشن اور دیگر ضروری خدمات فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ خود کو معاشرتی زندگی میں شامل رکھ سکیں۔ مزید یہ کہ حکومت کو بزرگوں کے لیے خاص مالی امدادی اسکیمیں متعارف کروانی چاہییں، جو ان کے روزمرہ کے خرچوں میں مدد فراہم کریں۔ ان اسکیموں میں کھانا، دوا، اور دیگر بنیادی ضروریات کی امداد شامل ہو۔ اس کے علاوہ، بینکوں کو بھی بزرگوں کے لیے مالی سہولیات فراہم کرنی چاہییں، جیسے بغیر کسی فیس کے کھاتہ کھولنے اور بینک خدمات میں خصوصی رعایتیں۔
بزرگوں کے لیے مخصوص صحت کی خدمات کا قیام ضروری ہے۔ ان خدمات میں سستی یا مفت علاج کی سہولت شامل ہو، اور ان کے لیے اسپیشل کلینک یا اسپتال قائم کیے جائیں جہاں بزرگوں کی بیماریوں کا خصوصی علاج کیا جائے۔ ان اسپتالوں میں بزرگوں کے لیے طبی مشاورت، فزیوتھراپی، اور دل اور ہڈیوں کے علاج کی خصوصی خدمات فراہم کی جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت کی ان سہولیات کی نگرانی اور انتظامات کو مزید مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ، بزرگوں کے علاج کے لیے مفت ادویات کی فراہمی اور مالی امداد کے پروگرام بھی متعارف کروائے جائیں۔ علاج کے علاوہ، بزرگوں کی صحت کے بارے میں تعلیم بھی دی جانی چاہیے۔ انہیں صحت مند غذا، ورزش، اور دیگر صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی صحت کا خیال خود رکھ سکیں۔ اس کے لیے مختلف ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔

بزرگوں کی تنہائی کو کم کرنے کے لیے مختلف سماجی سرگرمیوں کا انعقاد کرنا ضروری ہے۔ کمیونٹی سینٹرز، کلابز، اور مخصوص پروگرامز کے ذریعے بزرگوں کو معاشرتی سرگرمیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں تعلیمی پروگرام، تفریحی تقریبات، اور ورزش کے سیشن شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی تنہائی دور ہوگی بلکہ وہ اپنے آپ کو معاشرے کا ایک فعال حصہ محسوس کریں گے۔ بڑے شہروں میں بزرگوں کے لیے تفریحی پارکس اور گارڈن بھی بنائے جا سکتے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ مزید یہ کہ حکومت اور این جی اوز کو بزرگوں کے لیے خصوصی پروگرامز جیسے کہ موسیقی کی محافل، کتابوں کی تقریبات، اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا انتظام کرنا چاہیے۔ ان سرگرمیوں سے نہ صرف ان کے جسمانی صحت میں بہتری آئے گی بلکہ ان کی ذہنی حالت بھی بہتر ہوگی۔

خاندانوں کو بزرگوں کی ضروریات اور ان کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ معاشرتی تعلیم کے ذریعے خاندانوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ایک عظیم عمل ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کر سکتی ہیں تاکہ افراد کو ان کے حقوق اور سہولیات کے بارے میں آگاہی ہو۔ اگر خاندانوں کو تعلیم دی جائے تو وہ بہتر طریقے سے بزرگوں کی مدد کر سکیں گے۔ حکومت کو بزرگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع اور طویل مدتی پالیسیاں بنانی چاہییں۔ ان پالیسیوں میں صحت، رہائش، خوراک، اور دیگر ضروریات کو شامل کرنا ہوگا۔ بزرگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی اہم ہے، تاکہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی بدسلوکی یا ظلم کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ، بزرگوں کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال طور پر کام کرنا ہوگا۔ ایک خصوصی ڈیپارٹمنٹ بنانا چاہیے جو بزرگوں کی خدمات اور ان کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

این جی اوز اور سماجی تنظیمیں بزرگوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ ادارے بزرگوں کے لیے رہائش، خوراک، اور دیگر سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کی مدد سے بزرگوں کو معاشرتی خدمات کی فراہمی میں آسانی ہو سکتی ہے۔ ان تنظیموں کو حکومت کی جانب سے مالی اور قانونی حمایت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی خدمات کو مزید بڑھا سکیں۔ اس کے علاوہ، بڑے شہروں میں بزرگوں کے لیے سوشل ورک پروگرامز اور ویلفیئر ہومز کی تعداد بڑھانی چاہیے۔

ہندوستان میں بزرگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے مسائل کو نظرانداز کرنا ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ مالی مشکلات، صحت کی خدمات تک رسائی کا فقدان، اور سماجی تنہائی جیسے مسائل ان کی زندگیوں کو مشکل بنا رہے ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور خاندانوں کے اجتماعی تعاون سے ممکن ہے۔ حکومت کو بزرگوں کے لیے خصوصی پینشن اسکیمیں، سستی صحت کی خدمات، اور سماجی سرگرمیوں کے پروگرامز متعارف کروانے چاہییں۔ اس کے ساتھ، خاندانوں کو بھی بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ این جی اوز اور سماجی تنظیمیں بھی بزرگوں کی مدد کے لیے سرگرم ہو سکتی ہیں، جیسے رہائش، خوراک، اور دیگر سہولیات کی فراہمی۔ قانون سازی اور پالیسیوں کی مضبوطی بھی اہم ہے تاکہ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔ اگر ہم ان کے مسائل کو سمجھ کر اور مربوط اقدامات کریں تو نہ صرف ان کی زندگی بہتر ہوگی بلکہ معاشرت میں خوشحالی آئے گی۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی دیکھ بھال ہماری ثقافت کا حصہ ہے، اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان کی زندگی خوشحال ہو، ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

Leave a Comment