جاوید اختر بھارتی
رابطہ: 8299579972
استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا کااستاد ہو،، اور ایک شاگرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب واحترام کرے جب بیک وقت کئی استاد ایک جگہ ہوتے ہیں تو اساتذۂ کہا جاتا ہے لیکن ایسا اتفاق مدارس اور درسگاہوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے یقیناً جہاں اساتذۂ کرام قابل احترام ہوتے ہیں وہیں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ سب سے زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں اور ہر حال میں انکا احترام لازمی ہے بلکہ والدین کے بعد اساتذہ کرام کا ہی مقام بلند ہے اور ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذۂ کرام کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے والدین بچہ پیدا کرتے ہیں تو اساتذۂ کرام والدین کا مقام و مرتبہ بتلاتے ہیں، والدین بچوں کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں تو اساتذہ راہ حق پر چلنے کا طریقہ بتلاتے ہیں، والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو والدین کا احترام سکھاتے ہیں، والدین بچوں کو راہ چلتے گرنے سے بچاتے ہیں تو اساتذہ کرام راہ صداقت میں ثابت قدم رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اس لئے ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذہ دونوں کا رہنمائی کے میدان میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے اور جس انسان و مسلمان نے اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کرام کا احترام کیا وہ پوری زندگی کامیاب رہا اور ایک انسان و بالخصوص مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہے،، والدین پڑوسیوں سے بچے کی پہچان کراتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو پڑوسیوں کے حقوق بتلاتے ہیں، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا لڑکا ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے تو اساتذہ کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شاگرد جس شعبے میں قدم رکھے تو کامیابیاں بڑھ بڑھ کر اس کا استقبال کریں اور ایک ہوشمند لڑکا والدین کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور اساتذہ کرام کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور دونوں کا احترام لازم ہے آئیے قارئین کرام ذرا والدین کی آغوش سے لیکر اساتذہ کرام کی درسگاہ تک کا سفر کیا جائے،، ایک گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے، خوشیوں کا ازدہام ہوتا ہے، ساتویں دن عقیقہ ہوتا ہے،، اب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا اور ہر ماں باپ کے کچھ ارمان ہوتے ہیں، کچھ خواب ہوتے ہیں جسے وہ پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اب بچہ بڑا ہوگیا اب بچے کو تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے، حرام اور حلال کی پہچان کی ضرورت ہے، جائز و نا جائز کی معلومات کی ضرورت ہے، حق اور باطل سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسی کے مدنظر ایک دن باپ اپنے بیٹے کو لیکر اسلامی مدرسے میں پہنچتا ہے، اپنا تعارف کراتا ہے اور بچے کا بھی تعارف کراتا ہے باپ اپنے بیٹے کو تعلیم دینے کی سفارش کرتا ہے اساتذہ کرام باپ کی سفارش کو منظور کرتے ہیں اساتذہ کرام اب لڑکے کو پڑھانا شروع کرتے ہیں سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتے ہیں (اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے) اس کے بعد(الف) پڑھا کر اساتذہ کرام بتلاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھ ہی ساتھ،، اطیعواللہ و اطیعوالرسول کی بھی تعلیم دیتے ہیں (ب) پڑھا کر اسی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، بزرگانِ دین کی تعظیم کا درس دیتے ہیں،، (ت) پڑھا کر اسی اللہ َکی بارگاہ میں توبہ،، کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں، (ث) پڑھا کر اسی اللہ کی ثناء،، و حمد بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، (ج) پڑھا کر اسی اللہ کی جنت میں جانے والے کرنے کا درس دیتے ہیں،(ح) اور( خ) پڑھا کر حق بولنا، حج بیت اللہ کی خواہش رکھنا اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا سکھاتے ہیں، (د) اور( ذ) پڑھا کردرود پاک کی کثرت کرنے اور دنیا داری سے و ذلت،، آمیز کارناموں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، (ر) ، (ز) ، (س) ،(ش) پڑھا کر رب کی اطاعت کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے اور زمین،، پر فساد برپا نہ کرنے اور سلامتی،، کی دعا کرنے اور شکر،، گزار بندہ بننے کا سبق پڑھاتے ہیں،، اساتذۂ کرام آگے مزید بتاتے ہیں کہ( ص) سے صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنا، صلہ رحمی سے کام لینا اور صبر کا دامن ہاتھ سے تھامے رہنا، (ض) سے ضابطہ اسلام پر عمل کرنا، (ط) یعنی طاقت،، پر گھمنڈ نہ کرنا،( ظ) یعنی ظاہری طور پر دیکھانیوالی عبادت نہ کرنا( ع) اور(غ) یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے ،علم شعور ہے، علم نور ہے، اجالا ہے، روشنی ہے، اور علم کی روشنی میں منزل دیکھائی دیتی ہے اور علم کے ذریعے عقائد درست رکھتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے یعنی فاقہ بھی کرنا پڑے تو کرنا لیکن علم ضرور حاصل کرنا اور عبادت سے غافل نہ ہونا اور کبھی بھی غفلت میں نہ رہنا،، غیبت کبھی بھی کسی کی نہ کرنا، غرور کسی بھی بات کا کسی بھی چیز کا حتیٰ کہ علم اور اور عبادت پر بھی غرور ہرگز نہ کرنا،، (ف) ،(ق) اور (ک) یعنی فاقہ کشی کے عالم میں بھی،، کبھی ناشکری نہ کرنا،، بلکہ قرب،، الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، قرآن کو مکمل ضابطۂ حیات اور آئین اسلام تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا ،،
کفریہ باتیں، کفریہ کام کبھی نہ کرنا،، (ل /م) یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا ورد کرتے رہنا،، اور موت کو بھی یاد کرتے رہنا اور خود کو ایک مسافر سمجھنا،، (ن) یعنی ، نماز کی پابندی کرنا ، نماز سے ہی رب تبارک و تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور نماز ہی افضل العبادات ہے نماز کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں،،( و) یعنی یہ سارے کام وضو،، بناکر کرنا تاکہ عبادات اور ذکر و اذکار میں نکھار آئے عبادت و ریاضت میں نکھار ہوگا تو اس کی لذت بھی محسوس ہوگی (ہ) یعنی ہمدردی کا اظہار سب کے ساتھ کرنا ،،( ی) یعنی یا اللہ یا اللہ کرتے رہنا،، اتنا سکھایا اساتذۂ کرام نے اور اتنا سکھانے کے بعد انشاءاللہ زندگی میں انقلاب تو آنا ہی آنا ہے لیکن اب یہیں سے پھر امتحان شروع ہوتا ہے کہ تم اپنے اساتذہ کرام کا کتنا احترام کرتے ہو اور کتنی عزت کرتے ہو آج تو دیکھا جارہا ہے کہ اساتذۂ کرام نے طالب علمی کے زمانے میں رہنمائی کی ذہنی کیفیت کو روشن کیا اور تم بعد میں جاکر کسی پیر سے مرید ہوگئے تو پیر کا احترام کرتے ہو اساتذہ کا نہیں، ہر مہینے پیر کی خدمت میں حاضری دیتے ہو لیکن اساتذہ کی خدمت میں نہیں یاد رکھو صحیح پیر کی پہچان کا طریقہ بھی اساتذۂ کرام کی بارگاہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،، اور پیر کے احترام کا طریقہ بھی اساتذہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،، آپ چاہے فراغت کے بعد کتنی ہی شہرت حاصل کیوں نہ کرلیں لیکن جس طرح بیٹا باپ سے بلند نہیں ہوسکتا اسی طرح شاگرد بھی استاد سے بلند نہیں ہوسکتا آج اس بات کی بیحد خوشی ہے کہ کچھ باشعور اور با صلاحیت افراد جو زمانہ طالب علمی سے گذر کر فراغت حاصل کرنے بعد جہاں درس و تدریس کی دنیا میں قدم رکھ کر دین کی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں وہیں انکے سینوں میں والدین اور اساتذہ کا درد اٹھا اور ان لوگوں نے محسوس کیا کہ کچھ پل اساتذہ کرام،، کے نام بھی ہونا چاہیے دنیا کو بتانا چاہیئے کہ والدین کا مقام کیا ہے اور اساتذۂ کرام کا مقام کیا ہے،، اور یہی ان کے لیے سچا خراج عقیدت بھی ہوگا تاکہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہماری راہیں آسان ہوسکیں اور ہمارے دلوں میں اساتذۂ کرام کی محبت برقرار رہے اور محبت کی یہ دلیل بتائی گئی ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اس کا ذکر خوب کرتا ہے،، اور آج ہم جو کچھ بھی ہیں اس میں سب سے نمایاں کردار اساتذۂ کرام کا ہی ہے خلیفہ ہارون رشید کا بیٹا جب امام ابو بکر ابن عباس کی خدمت میں تعلیم حاصل کرنے پہنچا تو بوری اور چٹائی دیکھ کر اسے حیرت ہوئی اور یہ خیال آیا کہ میں بادشاہ کا بیٹا ہوکر اس چٹائی اور بوری پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں تو امام ابوبکر ابن عباس نے کہا کہ اگر تعلیم حاصل کرنا ہے تو اسی بوری اور چٹائی پر بیٹھنا ہوگا میں الگ سے تمہارے لئے کوئی انتظام نہیں کرسکتا خلیفہ ہارون رشید کا بیٹا اپنے گھر پہنچتا ہے باپ سے بوری اور چٹائی کا ذکر کرتا ہے اور ابوبکر ابن عباس کی بات بھی کہتا ہے خلیفہ ہارون رشید نے کہا کہ بیٹا تجھے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونا ہے تو علم کی دولت سے مالامال ہونا ہوگا اور علم کی دولت حاصل کرنے کے لئے تجھے اسی بوری اور چٹائی پر بیٹھنا ہوگا تبھی تیری قسمت کا ستارہ روشن ہوگا جا اسی بوری اور چٹائی پر بیٹھ کر وارثین انبیاء کی فہرست میں اپنا نام درج کرالے ایسا موقع زندگی میں بار بار نہیں ملتا۔
افسوس دو سال کا عرصہ ایسا گذرا کہ جہاں مختلف نقصانات ہوئے ہیں وہیں سب سے زیادہ غریبوں کا اور نظام تعلیم کا نقصان ہوا ہے کورونا وائرس نے زندگی کی رفتار پر بریک لگادی اور لوگوں کی سوچ ایسی بنادی کہ الیکشن ہوسکتے ہیں لیکن اسکول و مدارس نہیں کھل سکتے، اسکول و مدارس کی چہار دیواری میں سیاسی و سماجی میٹنگیں ہوسکتی ہیں اور شادی بیاہ کی تقریبات ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ کورونا کے مزید بڑھ جانے کا خطرہ ہے، انتخابی مہم جاری رہ سکتی ہے مگر تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا، ریلیاں رد نہیں کیا جاسکتا لیکن امتحانات رد کیا جاسکتا ہے دو سال میں پورا تعلیمی خاکہ تباہ ہوگیا کورونا وائرس سے متعلق احتیاطیں اقدامات کے نام پر دو سال میں جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر دل و دماغ پر عجیب حیرانی چھائی ہوئی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ کورونا بیماری ہے یا عذاب الٰہی ہے یا قیامت کی نشانی ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ وہ اساتذہ کرام جو داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں رب تبارک و تعالیٰ انکی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور وہ اساتذۂ کرام جو باحیات ہیں اللہ رب العالمین انکی عمروں میں برکتیں عطا فرمائے ہمارے سروں پر تادیر ان کا سایہ قائم رکھے آمین یارب العالمین ۔