مثالی طالب علم کے اوصاف

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
9897334419
علم حاصل کرنے والے کو طالب علم کہتے ہیں۔انگریزی میں ہم اسے STUDENTکہتے ہیں۔یوں تو ہروہ شخص جو علم حاصل کرے طالب علم ہے۔البتہ یہ لفظ عام طور پر ان بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی اسکول،مدرسہ یا کالج و یونیورسٹی میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ایک عام طالب علم اور مثالی طالب علم میں فرق ہوتا ہے۔زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم کے اندر کچھ خاص خوبیاں ہوں یعنی وہ مثالی طالب علم ہو۔ذیل میں ہم مثالی طالب علم کی چنداوصاف و خصوصیات کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔اساتذہ اور سرپرستوں سے گزارش ہے کہ وہ ان خصوصیات کا بغور مطالعہ فرمائیں اور ان کو بچوں کے اندر پیدا کرنے کی جانب توجہ فرمائیں۔اس لیے کہ طالب علم کی کامیابی ہی استاذاور والدین کا منتہائے نظر ہونا چاہئے۔
زندگی کا نصب العین واضح ہو:
ایک مثالی طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اس پر زندگی کا نصب العین واضح ہو، زندگی کا نصب العین متعین کیے بغیر حصول تعلیم کا مقصد متعین نہیں کیاجاسکتا۔طالب علم کو معلوم ہوناچاہئے کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے؟کیوں پیدا کیا ہے؟کائنات کے ساتھ اس کا رشتہ کیا ہے؟سماج کے اس پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟والدین اور دوسرے اعزہ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے؟وغیرہ۔ان سوالوں کے جوابات ہی دراصل اس کو مقصد تعلیم متعین کرنے میں معاون ہوں گے۔جس بچے کو یہی نہیںمعلوم کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے؟اور اسے مرنے کے بعد کہاں جانا ہے؟یا اپنے اعمال کا کس کو جواب دینا ہے تو اس میں اور دیگر حیوانات میں کیا فرق ہے؟ وہ کس طرح سماج کے لیے مفید مقصد متعین کرسکتا ہے؟
تعلیم کا مقصد متعین ہو:
ایک مثالی طالب علم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے سامنے منزل اور نشانات منزل واضح ہوں۔اسے کہاں پہنچنا ہے؟کیا بننا ہے؟اس کو طے کرنادراصل اساتذہ اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے۔کہاجاتا ہے کہ بچے کے مستقبل کی منصوبہ بندی اسی وقت کرلینی چاہئے جب کہ وہ حمل میں ہو۔بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔حدیث کے مطابق ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔‘‘(ترمذی)بچہ سن شعور کو پہنچنے تک خود اپنا مستقبل طے نہیں کرسکتا۔دیہات میں مثل مشہور ہے کہ’’ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں‘‘۔یعنی نومولود کی صلاحیتوں کا اندازہ پیدا ہوتے ہی ہوجاتا ہے ۔اس لیے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعدابتدائی درجات میں رہتے ہوئے اس کی صلاحیتوں کا اندازہ کرلیں۔ملک اور قوم کی ضروریات کا ادراک کریں اور پھر ایک منزل متعین کریں۔فرض کیجیے کہ آپ کو ایک اچھے وکیل کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کے پیش نظر آپ بچے کا تعلیمی منصوبہ بنائیں گے۔وہی مضامین پڑھوائیں گے جو اس کے وکیل بننے میں معاون ہوں گے۔اگر آپ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان مضامین کی تعلیم دیں گے جو اس کے ڈاکٹر بننے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مقصد متعین کرتے وقت اپنے حالات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کیجیے ۔بہت چھوٹا مقصد مت منتخب کیجیے ۔مثال کے طور پر آپ اپنا مقصد صرف پرائمری کلاسیز کا استاذ بننابنالیں ۔اگر ٹیچر بننا ہی ہے تو کم سے کم انٹر کالج اور ڈگری کالج کا ٹیچر بنئے یا پھر کسی یونیورسٹی میں پروفیسر بننے کا خواب دیکھئے۔جب آپ بڑا مقصد متعین کریں گے تو اپنی تیاری اسی حساب سے کریں گے ۔یہ مت سوچیے کہ ’’ میں پروفیسر نہیں بن سکتا ۔‘‘ آخر جو لوگ پروفیسر بنتے ہیں وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں ۔بڑا مقصد ہی کسی کوبڑا آدمی بناتا ہے ۔آپ جس راہ کو منتخب کریں گے اللہ تعالیٰ اسی راہ کی دشواریوں کو دور کرتا جائے گا ۔تکالیف تو آئیں گی ،لیکن وہ آپ کو منزل پر پہنچنے سے نہ روک سکیں گی۔
صلاحیتوں کا ادراک
ایک مثالی طالب علم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرنے والا ہوتا ہے۔اللہ نے انسان کو بے پناہ صلاحیتیں دے کرپیداکیاہے۔وہ بیک وقت درجنوںزبانیںبول سکتاہے۔وہ کئی فنون کاماہرہوسکتاہے۔وہ ایک ہی وقت میں مقرر،مدرس،مصنف،مولف،شاعر اورایڈیٹر،ہوسکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو مختلف الجہات اوصاف کا حامل بنایا ہے۔میرے کئی دوست ایسے ہیں جو ایم بی بی ایس بھی ہیں اور عربی اور اردو زبان کے ادیب و انشاء پرداز بھی اور اچھے شاعر و مصنف بھی۔جب کہ یہ دونوں پروفیشن الگ الگ ہیں۔ایک مثالی طالب علم کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان کو ڈیولپ کرنے کے لیے کوششیں کرے۔
وقت کی تنظیم
کامیابی میںایک اہم رول وقت کا ہے۔کہتے ہیں کہ جس نے وقت کی قدر کی وقت نے اس کی قدر کی،جس نے وقت کو ضائع کیا اس کو وقت نے برباد کردیا۔بقول شاعر
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کرکے چھوڑے گا
ایک مثالی طالب علم کو چاہیے کہ وقت کی تنظیم کرے۔ہر کسی کے پاس چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔کتنے ہی لوگ ان گھنٹوں کو یوں ہی کھیل کود اور خوش گپیوںمیںضائع کردیتے ہیں،جب کہ کچھ لوگ وقت کی تنظیم کرکے محیر العقل کارنامے انجام دیتے ہیں۔اس لیے وقت کی منصوبہ بندی کیجیے۔صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک تمام کاموں کے لیے وقت متعین کیجیے۔ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق ایک صحت مند انسان کو چھ سے سات گھنٹے سونا چاہیے۔ سونے اور آرام کے سات گھنٹے نکالنے کے بعد بھی ہمارے پاس سترہ گھنٹے باقی رہتے ہیں۔تین وقت کھانے اور پانچ وقت کی نماز کے لیے دو گھنٹے درکار ہیں۔باقی پندرہ گھنٹے ایک طالب علم کو روزانہ حصول علم کے لیے میسر رہتے ہیں۔اس میں پانچ سے چھ گھنٹے کلاس ہوتی ہے اور باقی نو گھنٹے انفرادی اور ذاتی مطالعہ کے لیے بچتے ہیں۔اس کے علاوہ اسکول میں آئے دن چھٹیاں ہوتی رہتی ہیں جن کا استعمال ایک مثالی طالب علم اپنے علم میں اضافے کے لیے کرتا ہے۔
مثبت سوچ رکھیے
انسان کی کامیابی میں اس کی سوچ کا بہت اہم رول ہے ۔سوچ دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ایک منفی اور دوسری مثبت ۔منفی سوچ انسان کو پستی کی طرف لے جاتی ہے اور مثبت سوچ کا سفر ترقی اور بلندی کی طرف ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک سوچ یہ ہے کہ ’’ یار آج کل سرکاری نوکری نہیں ملتی اس لیے پڑھ کر کیا کروں گا۔‘‘ یہ منفی سوچ ہے ،اس سوچ کے ساتھ آپ کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔منفی سوچ ،بزدلی ،کم ہمتی اور یاس و قنوطیت پیدا کرتی ہے ۔ایسے انسان کو ہر وقت دوسروں سے شکایات رہتی ہیں ۔وہ دوسروں کی کامیابیوں سے حسد کرنے لگتا ہے ۔اس لیے اپنے سوچ کی سمت درست رکھئے اسے منفی ہونے سے بچائیے ۔آپ سوچیے کہ اگر سرکاری نوکری نہیں بھی ملے گی تو تعلیم کے ذریعہ میں اپنا ذاتی کام اچھے طریقے سے کروں گا ۔اس لیے کہ آپ تعلیم یافتہ ہوں گے تو اپنی کمپنی بناسکتے ہیں ،اپنا اسکول کھول سکتے ہیں ،اس کے علاوہ اور بھی دیگر بہت سے کام ہیں جو کیے جاسکتے ہیں ۔مثبت سوچ صرف اپنے تک ہی محدودنہ رکھیے بلکہ دوسروں کے تعلق سے بھی مثبت ہی رہیے ۔ہر شخص کو اپنی نظروں میں مشکوک نہ بنائیے ۔اگر کسی شخص نے کسی وقت آپ کی حمایت نہیں کی ہے یا ساتھ نہیں دیا ہے تو اس کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ یہ سوچئے :
کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
عمل کیجیے
جو کچھ پڑھیے اس کو عملی جامہ پہنائیے ۔وہ سبق ہمیشہ یاد رہتا ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے ۔لوگ علم سے نہیں عمل سے متاثر ہوتے ہیں ۔ کوئی انقلاب صرف باتوں سے نہیں لایا جاسکتا بلکہ میدان عمل میں سرگرم رہ کر لایا جاسکتا ہے ۔ایک مثالی طالب علم وہ ہوتا ہے جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے یا عملی مشق کے ذریعہ اس کو زندہ رکھتا ہے ۔آپ کمپیوٹر کی کتاب پڑھ کر کمپیوٹر چلانا نہیں سیکھ سکتے ۔کمپیوٹر چلانے کے لیے آپ کو اس کی مشق کرنا ہوگی ۔اس لیے جو کچھ کتابوں میں آپ پڑھیں اس کو عملی زندگی میں اتارنے کی کوشش کیجیے ۔
حوصلہ نہ ہاریے
زندگی میں خوشی اور غم ،آسانیاں اور مشکلات آنا فطری امر ہے ۔دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے جسے کبھی کوئی غم یا تکلیف پیش نہ آئی ہو ۔جس طرح موسم کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اسی طرح انسان کے حالات بھی یکساں نہیں رہتے ۔ اکثر ہمارے حالات اپنے اعمال کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں ،لیکن کبھی کبھی اس میں دوسروں کا بھی دخل ہوتا ہے ۔کبھی ملک کے حالات خراب ہوجاتے ہیں ،کبھی کورونا جیسی بیماریاں آجاتی ہیں۔ایک مثالی طالب علم کو خراب حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔خراب حالات کو اپنے حق میں بہتر بنانے کا فن آپ کی کامیابی کا ضامن ہے ۔جو لوگ مخالف ہوائوں میں بھی چراغ روشن رکھتے ہیں وہی دنیا میں اجالا کرسکتے ہیں ۔آپ نے اپنا جو ہدف متعین کیا ہے اور جو خواب دیکھا ہے اسے پورا کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش کیجیے ۔سب سے بڑی ناکامی ہمت ہار جانا ہے ۔ایک چیونٹی دیوار پر چڑھتے ہوئے درجنوں بار زمین پر گرتی ہے ،لیکن ہمت نہیں ہارتی ،آخر ایک وقت وہ آتا ہے جب وہ دیوار پر چڑھ کر اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہے ۔کیا ہم چیونٹی سے بھی گئے گذرے ہیں جو ایک دوبار کی ناکامی میں ہی ہمت اور حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔
غلطیوں سے سیکھئے
غلطی سرزد ہونا انسانی فطرت ہے۔انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے ۔لیکن غلطیوں سے نصیحت حاصل نہ کرنا بے وقوفی اور حماقت ہے ۔کسی غلطی کو بار بار کرنا ادنیٰ درجہ کی جہالت ہے ۔ایک ہاتھ آگ میں جل جائے تو دوسرا ہاتھ آگ میں ڈال کر تجربہ کرنے والا پاگل ہی کہلائے گا ۔نہ صرف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھئے ،بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی عبرت حاصل کیجیے ۔کوئی شخص زہر کھاکر مرجائے تو آپ زہر نہ کھائیں ،اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ یہ شخص زہر کھاکر مرگیا تو کیا ہوا ،میں خود بھی زہر کھاکر دیکھوں گا تو ہوسکتا ہے آپ نتیجہ بتانے کی پوزیشن میں بھی نہ رہیں ۔ہماری درسیات میں تاریخ کا مضمون اسی لیے پڑھایاجاتاہے کہ ہم ماضی میں اسلاف کے ذریعہ کے گئے تجربات سے سبق حاصل کریں ۔اگر ہر شخص تجربہ کرکے ہی یقین کرے گا تو تاریخ نویسی کی ضرورت کیا ہے ۔ایک مثالی طالب علم غلطیاں کم کرتا ہے اور ایک غلطی کو دوبارہ نہیں کرتا ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا۔‘‘(متفق علیہ)
اساتذہ اور کتابوں کا احترام کیجیے
اگر میں یہ عرض کروں کہ طالب علم کو نصف علم اساتذہ کے احترام سے حاصل ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب کی کہاوت ہم زمانے سے سنتے آرہے ہیں ۔لیکن میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اساتذہ اور کتابوں کی عزت کرنے سے بعض طلبہ نے آسمان کی بلندیاں حاصل کرلیں ۔ہم جانتے ہیں کہ احترام نتیجہ ہے محبت کا ۔اس لیے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں اور محبت میں انسان اپنا دل نکال کر دے دیتا ہے ۔آج کل کالجوں اور اسکولوں میں ادب نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے ۔بڑے طلبہ اپنے اساتذہ کے سامنے سگریٹ کے مرغولے اڑاتے ہیں ۔کلاس میں استاذ کے ڈانٹنے پر اسے کالج کے باہر گھیر لیتے ہیں اور بعض اوقات قتل تک کرڈالتے ہیں ۔یہی حال ہماری کتابوں کا ہے ۔کتابوں پر لکھنا ،ان کو پٹخ کر پھینکنا،ان کے پھٹ جانے پر کیئر نہ کرنا وغیرہ کتابوں کی توہین ہے ۔ہم اپنی مذہبی کتابوں کا احترام کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے ہی نا کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاتی ہیں ،تو ہماری درسی اور نصابی کتب بھی ہمیں وہ راستہ بتاتی ہیں جس پر چل کر ہم اپنی معاشی ،سماجی اور سیاسی زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔جس طرح استاذ ہمیں پڑھاتا ہے اسی طرح کتاب بھی ہمیں پڑھاتی ہے ۔ایک مثالی اور اچھا طالب اپنی کتابوں کو سلیقہ سے رکھتا ہے ،وہ انھیں سینے سے لگاتا ہے ۔وہ اپنے اساتذہ سے محبت کرتا ہے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھائے رکھتا۔
ایک مثالی طالب علم اپنی منزل پر نظر رکھتا ہے ،اس کے سامنے مقصد زندگی اور مقصد تعلیم واضح رہتا ہے ،وہ وقت کی قدر کرتا ہے ،اسے اپنی صلاحیتوں کا شعور ہوتا ہے ،وہ غلطیوں سے اجتناب کرتا ہے ،اس کے اندر سستی اور کاہلی نہیں ہوتی،وہ سب کے کام آتا ہے اس لیے وہ ہردل عزیز ہوتا ہے ،ہر شخص کی زبان پر اس کے لیے تعریفی کلمات ہوتے ہیں ۔سب اس کو دعائیں دیتے ہیں ۔اس کی یہی صفات اس کو اپنے مقصد میں کامیاب کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔

Leave a Comment