میرے بچے نا مراد ی میں جواں ہوئے گئے

شیبا کوثر ( آرہ ،بہار )

کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں درس گاہ کا رول بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔کیوں کہ یھی یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے ۔درس گاہیں جتنی معیاری ہونگیں وہاں سے نکلنے والی نسلیں بھی اتنی ہی معیاری ہونگیں ۔
جہاں تک درس گاہ کا تعلق ہے دنیا کے تمام مفکر ین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ماں کی گود ہی انسان کی پہلی درسگاہ ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ اگر بچے کی سوچ ،فکر اور کردار و گفتار پر اگر سب سے زیادہ کسی کی چھاپ ہوتی ہے تو وہ اس کی ماں ہوتی ہے ۔
اکثر مشا ہدے میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر ایک ماں پڑھی لکھی اور با شعور ہوتی ہے تو اس کے بچے بھی با شعور اور تہذیب یافتہ ہوتے ہیں اور اگر ایک ماں علم وشعور سے نا بلد ہوتی ہے تو اس کے بچے بھی شعور کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔
مجھے بچپن کی ایک کہانی یاد آ رہی ہے جو ایک عمر دراز شخص نے مجھے دوران سفر سنائی تھی جو آج تک ہمارے ذہن میں محفوظ ہے جس میں ایک ماں کے کردار کو واقعتاً بڑے اچّھے انداز میں پیش کیا گیا ہے جسکا تذکرہ یہاں پر کرنا مناسب ہوگا ۔وہ کہانی ہے ایک کامیاب انسان کی جس میں ایک ماں کا بہت اہم رول ہے ۔کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی اس کا ایک بیٹا تھا جو گاؤں کے ہی اسکول میں پڑھتا تھا ایک دن جب وہ بچہ اسکول سے گھر واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا جو اس کے اسکول کے ٹیچر نے اسے دیا تھا اور کہا تھا
کہ اسے اپنی ماں کو دے دینا اس بچے نے آتے کے ساتھ اس خط کو اپنے ماں کے حوالے کیا اور ماں سے کہنے لگا کہ ہمیں پڑھ کر سنائیں کہ اس میں کیا لکھا ہے اس خط میں لکھا تھا کہ آپ کا بیٹا پڑھنے میں بہت کمزور ہے پڑھائی میں دل نہیں لگاتا ہے اور کلاس میں شرارت زیادہ کرتا ہے اس لئے اسکول سے بر خواست کر دیا گیا ہے ماں کو اس بات کا بہت دکھ اور افسوس ہوا ۔لیکن ماں نے صبر و ضبط سے کام لیا اور اپنے چہرے پر خوشی کے تاثر کو نما یا ں کرتے ہوئے جو جواب اپنے بیٹے کو دیا وہ ہر ماں کے لئے رہنمائی ہے ۔
ماں نے کہا کہ بیٹا اس میں لکھا ہے کہ اب کل سے تم اسکول نہیں جاؤ گے تمہارے استاد نے لکھا ہے کہ آپ کا بیٹا
بہت ذہین ہے اس لئے اسکول میں اس کا وقت ذایعء ہوگا بہتر ہے کہ آپ اس کے لئے گھر پر ہی کوئی اچّھا استاد مقرر کر دیجئے تاکہ وہ اور بچوں سے الگ رہ کر اپنا سارا دھیا ن پڑھائی کی طرف لگائے ۔اس لئے اب تم گھر پر ہی پڑھائی کرو گے اور پھر اس عورت نے اپنے لڑکے کے لئے گھر پر ہی ایک اچھا استاد مقرر کر دیا بچے پر ماں کی اس گفتگو کا بڑا خوشگوار اثر مر تب ہوا اور بچہ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں لگ گیا پھر جب بڑا ہوگیا اور ہائی اسکول جانے کا وقت ہوا تو اس نے پرائیوٹ سے فارم بھرا اور نمایاں نمبر سے کامیاب ہوا ۔اس کی لگن اور محنت نے اسے آخر کار ایک کامیاب ڈاکٹر بنا دیا ۔وا قعہ کی سچائ پر ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے مگر اس میں ہر ماں کے لئے ایک درس ضرور موجود ہے ۔سچ تو یہی ہے کہ عورتوں کو بھی اللّه نے ذہانت اور صلاحیت جیسے جوھَر عطا فرمایا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ماں کی گود ہی وہ پہلا مکتب ہے جہاں پر انسان کا اولین نشو و نما ہوتا ہے اگر یہاں پر کردار سازی ہوتی ہے تو زندگی بھر وہ اس کی شخصیت کا حصّہ بن جاتا ہے اور اگر کردار کی ڈھلا ئی ہوتی تو وہ بھی اس کی شخصیت کے ساتھ ساتھ پروا ن چڑھتا ہے یہاں سے ذہن و دماغ کو جو بھی رخ دیا جاتا ہے وہ انسان کی زندگی پر ہمیشہ ہی حا وی رہتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ عظیم افراد اور عبقری شخصیات جن پر ہمیں فخر ہے عظیم ماؤں کی گود کے تربیت یافتہ تھے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہماری غفلت اور کوتاہی کے نتیجےمیں خواتین کی اکثریت جہالت و نا خواندگی کی شکار ہیں یا ایسی تعلیم حاصل کر رہی ہیں جو برائے نام ہے۔اسکول اور کالجوں میں تو پڑھ رہی ہیں مگر ماحول کے اثرات سے بچ نہیں پا رہی ہیں جس کی وجہ سے اخلاق و کردار سے دور نظر آتی ہیں۔اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ عورتیں سوسا ئٹی کا ایک ایک اہم جز و ہیں ۔ان کو بہتر تعلیم اور اچھے اخلاق و کردار سے آرا ستہ کرنا سماج کی اہم ذمہ داری ہے ان کو تعلیم سے محروم رکھنا ملت و معاشرے کی تعمیر و ترقی کا کام صحیح طور پر وہی خواتین انجام دے سکتی ہیں جن کی تعلیم و تربیت بہتر ڈھنگ سے اور خوشنما ماحول میں ہوئی ہے اور جو جدید علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو بھی سمجھتی ہوں اور یہ کام بہت حد تک وہی عورت انجام دے سکتی ہے جو زہدو تقویٰ سے نزدیک تر ہو کیوں کہ زہد کی وادی بڑی دشوار گزار ہے۔اس کا حصول آسان نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی زینت و آرائش اور مال و دولت جاہ و منصب اولاد ،نفسیاتی خواہشات اور بہت سی دل فریبیوں سے گھر ے ہوئے ہیں اور اور یہ ساری چیزیں دل پر دباؤ ڈالتی ہے اور انسان کو اپنے دائرہ میں کھینچ کر لانے کی کوشش کرتی ہیں دوسری طرف انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت ہے جو ان میں سے کسی ایک کی سحر کاری کا بھی مقابلہ آسانی سے نہیں کر سکتا لیکن جہاں معا ملہ چہار جانب کا ہو تو ان سب سے بچ پانا کوئی آسان کام نہیں ۔
جو شخص بچپن سے ہی لذتوں اور آرام و آسائش کا دلدا دہ ہوتا ہے ماں باپ کی شفقت اور رشتہ داروں کی مہربانی حاصل رہتی ہے جو بڑے ناز و نعم سے پالتے ہیں اس پر اپنی رحمتوں اور شفقتوں کے ڈونگرے برساتے ہیں جس کی وجہ کر اس کے حواس ،اس کی فطرت اور اس کی خواہشات سب کچھ نرم و نازک ہو جاتی ہے اور لذتوں کی دلدا دہ اس ماحول میں جس میں وہ پل بڑھ کر جوان ہوتا ہے اور اس کا دل دینوی زندگی کے مظاہرےکی طرف جھکا ہوا ہوتا ہے تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اتنی آسانی سے کوئی انسان زهد و تقویٰ جیسے دشوار گزار راہ کو پالے گا ۔اس کے لئے تو بڑی سخت محنت در کار ہے جو بچپن سے ہی اس کو اس راہ پر چلنے کی تلقین کرتی رہے اور وہ ہستی ایک ماں ہی بہتر ہو سکتی ہے ۔
اس لئے ہر ماں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی اولاد کے بیجا ناز و نخرے کو نہ اٹھائے،اس کی ہر ضد کو نہ پورا کرے بلکہ اچھے اور برے کی تمیز کے ساتھ اس کی پرورش کرے ،اسکی خواہشات کی بھی تکمیل ضروری ہے بہت سی ماں ضرورت سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کرتی ہیں جوصحیح نہیں ہے بلکہ بچوں کی شخصیت کی نشو و نما ں میں مضر ثابت ہوتا ہے انکی انکی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے انکے ساتھ پیار و محبّت کا بھی مظاہر ہ ضروری ہے اس لئے ایک متوازن اور بیلنس رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کبھی کبھی ماں کو بھی بہت صبر و آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ۔جس کے لئے ہر ماں کو تیار رہنا چاہئے تبھی جاکر صحیح تر بیت کے مراحل کو طئے کیا جاسکتا ہے ۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب پہلے سے زیادہ عورتیں تعلیم کے میدان میں قدم رکھ رہی ہیں سرکار بھی اس بات پر توجہ دے رہی ہے کہ کیسے عورتوں کا تناسب تعلیم کے میدان میں بڑھے کئی اسکیمیں چل رہی ہیں جس کا فائدہ عورتوں کو مل رہا ہے اور ہمارے ملک کی خواتین اور ہماری بہنیں بھی تعلیم کے ہر شعبے میں نمایا ں کار کردگی کا مظاہر ہ کر رہی ہیں اس لئے آنے والے دنوں میں امید کی کرن روشن ہے ۔
صرف ایک بات پر دھیان دینا پڑے گا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالجوں میں انکی تر بیت کا کوئی بہتر انتظام ہو۔ہمارے خیال سے اس کا بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ اسکول اور کالجوں سے ہی لڑکیوں کو پڑھائی کے ساتھ سماج میں جو غریب بچے ہیں جنکی ماں پڑھی لکھی نہیں ہیں اور محنت مزدور ی میں لگی ہوتی ہیں ان سے رابطہ کر کے انہیں کچھ وقت دینا چاہئے جس سے انکے اندر بچوں کی تربیت کرنے کا ہنر پیدا ہوگا لیکن یہ سب کسی کے گائیڈ لائن میں ہی ہو سکتا ہے اس لئے اسکول اور کالجوں میں اس طرح کا کوئی نظام بنانے کی ضرورت ہے اس طرح اگر ہم ماں کو ایک کامیاب ماں بنانے کی توجہ دیں جو اپنے بچوں کو ایسی تربیت دے جو ہر دشوارییوں کو ہمیشہ ہمت اور لگن کے ساتھ پار کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکے تو یہ سماج اور معاشرے کے لئے ایک بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو نسل در نسل بہتر پرورش اور اعلی اخلاقی اقدار کو اپنے بچے کے کردار میں داخل کر سکتی ہے۔جو بہتر تعلیم کے لئے بہت اہم ہے تبھی جا کر تعلیم کے اصل مقصد سے سماج کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اورایسا ہی انسان سماج اور معاشرے کے لئے عملی طور پر بہتر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے ورنہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم بہت سارے مسائل سے گھر ے رہینگے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص دھیان دیا جائے اور جو لڑکیاں تعلیم سے دور ہیں انہیں اسکول تک لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ کئی خاندانوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور اگر یہ جاہل اور علم سے دور رہینگی تو کئی خاندان اس کے زد میں آتے ہیں ۔
میرے بچے نا مراد ی میں جواں ہوئے گئے
میری خواہش صرف بازاروں کو تکتی رہ گئی۔!

 

Leave a Comment