امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
آج مولانا کا دہلی میں آخری دن تھا، رات بارہ بیس پر وطن مالوف کے لئے ٹرین تھی اور اس حقیر کو ملاقات کی تمنا تھی؛ بھیڑ بھاڑ اور جلسوں کی گہما گہمی میں ملنے کا من نہیں تھا، اس لئے کئی مدرسوں کے پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی لیکن گیا نہیں، بالآخر فون کرکے وقت لیا اور مولانا نے بڑے خوش اسلوبی سے نو سے گیارہ بجے شب کا وقت دے دیا؛ مولانا کا قیام قریب ہی مسجد بادل بیگ لال کنواں دہلی میں تھا، مولانا حذیفہ قاسمی استاد شمس العلوم شاہدرہ دہلی اور مفتی کلیم قاسمی امام و خطیب حنفیہ مسجد کریم ہوٹل مٹیا محل جامع مسجد دہلی کی معیت میں ہمارا سہ نفری قافلہ مولانا کی خدمت میں وقت معینہ پر پہنچ گیا؛ مولانا سے سلام و مصافحہ ہوا، حقیر نے احباب کا تعارف کرایا، مولانا بہت خوش ہوئے اور دن بھر کے بھاگا دوڑی کے تھکان کے باوجود بہت خندہ پیشانی کے ساتھ شرفِ ملاقات بخشا۔
ہمارے بہت سے غیر عالم قلمی احباب مجھ سے کسی بھی دینی عنوان پر لکھنے سے قبل اس کے متعلق آیات و احادیث سے رہنمائی مانگتے تھے، احقر قرآن و حدیث سے میں تلاش کر عبارت و ترجمہ اور احناف کے مطابق مختصر تشریح کے ساتھ بھیج دیا کرتا تھا؛ اس تلاش و تتبع میں خاصا وقت صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات مصروفیات کی وجہ سے بر وقت نہیں بھیج پاتا تھا اور کبھی مطلوبہ آیت و حدیث تک پہنچ بھی نہیں پاتا تھا؛ بالخصوص عقائد و ایمانیات سے متعلق آیات و احادیث کی تلاش مجھ سے جیسے کم مایہ کے لئے خاصا مشکل ہوتا تھا، اس لئے تلاش تھی کسی ایسے کتاب کی، جس میں عقائد و ایمانیات سے متعلق آیات و احادیث یکجا مل جائے، چنانچہ اسی جستجو میں ایک دن نیٹ کھنگالتا رہا، اردو عربی کی متعدد کتابیں دیکھتا رہا اور پھر ثمرۃ العقائد سامنے آئی، اسے بھی الٹ پلٹ کر دیکھا اور مطلوب تک رسائی حاصل ہوگئی؛ اس میں ایک ہی جگہ تمام عقائد کی دلیل قرآن و حدیث سے مزین دیکھ کر خوشی ہوئی اور فوراً ڈاؤن لوڈ کر کے موبائل کے محفوظ خانہ میں محفوظ کر لیا، اب بڑی آسانی سے اس سے نکال کر یہاں وہاں بھیج دیتا ہوں اور استفادہ کرتا رہتا ہوں۔آن لائن سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں خریدیں۔
ثمرۃ العقائد کتاب ہی مولانا سے غائبانہ تعارف اور علمی لگاؤ کا سبب بنی، لاک ڈاؤن کے بعد امامت و خطابت سے جڑا تو ہر ماہ چاند کا مسئلہ در پیش آنے لگا اور اس موقع سے مولانا کی چاند کے حوالے سے تحریر و ویڈیو دیکھنے اور پڑھنے کا
اتفاق ہوا تو مزید عقیدت ہوئی اور بڑھتی چلی گئی؛ مولانا سات سمندر پار لندن میں بیٹھ کر علماء دیوبند اور فکرِ دیوبند کی ترجمانی جس بے باک انداز میں کرتے ہیں، اس بنیاد پر دارالعلوم دیوبند سے علمی، فکری، تعلیمی نسبت سے جڑا ہر فرد بشر کے دل میں مولانا کی محبت کا پیدا ہونا فطری ہے اور شوقِ ملاقات کا شعلہ زن ہونا عین تقاضۂ محبت ہے؛ کسی علمی شخصیت کا رعب ایک ادنی طالب علم پر کس قدر ہوتا ہے، وہ اس راہ کے مسافر بخوبی جانتے ہیں، یہ طالب علم بھی اسی رعب و دبدبہ کے تصور کے ساتھ سامنے آیا مگر یہ کیا؟ مولانا تو بالکل سیدھے سادھے نکلے، نہ چہرے پر علمی تفوق کی کرختگی اور نہ اندازِ میل جول میں روایتی وضع داری، بس اپنی مٹی کے زیرِ اثر دیہاتی انداز اور نہ اس پر کوئی عار و احساس کمتری، تکلیف و تکلف کا اتہ پتہ نہیں، زبان بھی ٹھیٹھ اپنی، جس میں اردو کے ساتھ علاقائی زبان کے زیر و بم کا اثر اور اس پر کوئی خجالت نہیں، موصوف محترم کے اس اداءِ دلبرانہ نے دل دماغ کو پہلے سے زیادہ متاثر کیا۔
آپ دنیاوی الجھنوں سے بالکل آزاد ہیں، نہ فکرِ معاش ہے نہ فکرِ عیال، بس لکھنا پڑھنا کام ہے اور اسی کام میں شب و روز گزرتا ہے؛ آپ کی تصنیفات و تالیفات اور تحقیقات و تعلیقات ساٹھ کے قریب ہیں اور سب کے سب اہلِ علم میں مقبول ہیں؛ ان میں ثمرۃ العقائد بالکل منفرد ہے، میری نگاہ میں اس عنوان پر اردو میں اس قدر محقق و مدلل پہلی کتاب ہے، اس میں تین سو پچاس عقائد مع دلائل جمع کر دئیے گئے ہیں اور ہر عقیدہ سے متعلق آیات اور صحاح ستہ سے احادیث درج کئے گئے ہیں؛ حنفی مسلک پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ حدیث کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرتے ہیں، مولانا نے”حنفیہ کا مسلک احتیاط پر ہے“ کے نام سے کتاب لکھ کر اس الزام کا مسکت جواب دیا ہے اور ہر ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث کی نص لاکر فقہ حنفی کی جامعیت کو ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، اس کے علاوہ دیگر کتب بھی تحقیق و تفتیش میں اعلیٰ معیار کی ہیں۔آن لائن سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں خریدیں
مولانا کی صحبت میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ رہا، صرف علمی گفتگو ہوئی اور مختلف موضوعات پر ہوئی؛ مولانا دن بھر کے تھکے ہوئے تھے اور ساڑھے گیارہ بجے اسٹیشن کے لئے نکلنا بھی تھا؛ اس لئے ساڑھے دس بجے ہم لوگوں نے اجازت لی اور لوٹ آئے؛ مولانا فی الحال گاؤں گئے ہیں، ستائیس نومبر کو لندن واپسی ہے، ان بچے ہوئے دن میں بہار جھارکھنڈ کے تین سو پروگرام بھی طے ہیں، حیرت ہوئی کہ پچھتر برس کی عمر میں بھی اس قدر متحرک ہیں اور ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں شریک ہو رہے ہیں، یہ مولانا ہی کی ہمت اور اعلیٰ ظرفی ہے؛ مولاناجس ملک میں قیام پذیر ہیں، وہاں کی محض ادنیٰ نسبت پر ہی لوگ غرانے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہفت اقلیم کی سیادت مل گئی، جاہ و جلال عروج پر ہوتا ہے اور چھوٹے موٹے لوگوں کو منہ بھی نہیں لگاتے ہیں مگر مولانا کی زندگی ایک دم سادہ ہے، نہ حشم و خدم کی طلب اور نہ ہٹو بچو کی خواہش، بھتیجہ ساتھ میں ہے اور اسی کے ساتھ ہر جگہ اپنی سہولت سے پہنچ جاتے ہیں؛ مولانا کی زندگی میں ہم خوردوں کے لئے سبق ہے، اللہ ہمیں اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور حضرت مولانا کی عمر و صحت میں برکت عطاء فرمائے۔