!اپنے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھائیں

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم ، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

اسلام کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے لئے جہاں یقین محکم (Conviction) اور عزم مصمم (Determination) کی ضرورت ہوتی ہے وہیں علم شریعہ کا ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ علم کو عمل کا امام کہا گیا ہے، اگر علم ہی نہ ہو تو چاہ کر بھی انسان شریعت کے احکام پر کاربند نہیں ہوسکتا۔ اس لئے دینی معاملات میں علم کے اعتبار سے ہر مسلمان کو خود کفیل بننے کی کوشش کرنا چاہیے یعنی اسے بنیادی دینی مسائل کو ضرور سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مذہبی امور کو خود بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ یہ ہر مسلمان کے اوپر ایک فرض ہے اور اسلام کی یہ بہت بڑی خوبی بھی ہے کہ یہاں دینی علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیںہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی دینی علوم پر اجارہ داری ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے، اسلام کا مزاج نہیں! یہ کوئی پنڈتوں والا دین نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں جب تک علاقہ کے پنڈت جی نہیں آئیں گے آپ کا کوئی مذہبی امر پورا ہی نہیں ہوگا۔
اسی سلسلے کی ایک چیز نماز جنازہ بھی ہے۔ ہر شخص کو نماز جنازہ پڑھنے یا پڑھانے کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور حسب ضرورت اپنے والدین، اولاد یا دوسرے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ آپ جس محبت اور خلوص سے نماز پڑھائیں گے اور میت کی مغفرت کی دعا فرمائیں گے وہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا اور جو پروفیشنل امام ہے وہ تو قطعاً نہیں کر سکتا الا یہ کہ اسے میت سے کوئی مخلصانہ تعلق رہا ہو۔ احقر نے بعض پروفیشنل امام کو نماز جنازہ پڑھاتے وقت ایسا رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے مانو وہ میت کے ورثاء پر کوئی احسان کررہے ہوں حالانکہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ مرجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور جنازے کے ساتھ قبرستان جائے ۔ (سنن ترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۷۳۶)۔
اور ہاں نماز بھی ایسی کہ اللہ کی پناہ، جیسے تیسے جلدی جلدی بس پڑھ ڈالی، اطمینان و سکون تو گویا لوگوں کی نماز سے اٹھ ہی چکا ہے۔ ان پروفیشنل لوگوں کو اگر سماج کی لعنت و ملامت کا خوف نہ ہو تو یہ لوگ نکاح کی طرح نماز جنازہ کی بھی فیس باندھ لیں لیکن شکر ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ البتہ خفیہ طور پر نذرانہ دینے کی بنیاد پڑچکی ہے۔ اس کی اطلاع احقر کو چند دنوں قبل ہی ایک رفیق نے دی۔ ان کے ایک عزیز کے یہاں کسی کی وفات ہوئی تھی اور وہ جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تھے تو انہوں بچشم خود میت کے وارث کو امام جنازہ کو پانچ سو روپے نذرانہ دیتے ہوئے دیکھا جسے اُس پروفیشنل امام نے خاموشی سے اپنی جیب میں رکھ لیا اور ایک بار بھی دینے والے کو یہ نہیں کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں، یہ درست نہیںہے۔ کیا پتا کل کو اس کے جواز کا کوئی فتوی بھی لے آئیں! یہ کہیں اور کی نہیں پٹنہ کی ہی بات ہے۔ انہوں نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو بے ساختہ میرے منہ سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا۔ افسوس کہ ہم کہاں پہنچ گئے، ہم نے اسلام کو پنڈتوں والا دین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔
احقرنے ان پروفیشنل لوگوں کو عوام کو اپنے مذہبی امور میں اُن پرمنحصر ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے بھی سنا ہے، اگر آپ ان کی اصلاح کی کوئی بات کہہ دیں جسے یہ لوگ اپنی تنقید اور مخالفت سمجھتے ہیں تو یہی کہیں گے کہ مولویوں کی مخالفت کرتے ہو، مولوی کے بغیر تمھارا عقیقہ، قربانی، نکاح اور جنازہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا، گویا یہ خود کو اسلام کے پنڈت سمجھتے ہیں۔ افسوس ہے ایسی سوچ کے لوگوں پر، ان پر یہ ذمے داری عائد تھی کہ وہ عوام کو ضروری دین سکھاتے اور ان معاملات میں انہیں خود کفیل بناتے لیکن یہ پنڈت بن بیٹھے، اور اپنی ناکارکردگی پر افسوس کرنے کے بجائے اس کے نتائج پر الٹا انہیں طعنے دینے لگے۔ دراصل جن لوگوں نے دین کو کمانے کھانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے آپ دین کے معاملے میں خودکفیل ہوں۔ وہ تو یہی چاہیں گے کہ آپ جاہل بنے رہیں تاکہ دین کے نام پر وہ آپ کا استحصال کرتے رہیں۔
آپ اپنے اطراف میں غور کیجئے، آپ کو شاید ہی کوئی ایسا امام ملے جس نے اپنے تمام یا اکثر مقتدیوں کی نماز ہی درست کرادی ہو یا اس کی فکر رکھتا ہو اور متعلقہ کوششوں میں مصروف ہو، کامل نماز تو چھوڑ دیجئے کسی نے اپنے سارے مقتدیوں کو نماز جنازہ ہی سکھا دیا ہو، الا ماشاء اللہ۔ اگر کوئی ایسا مل جائے تو ان کی قدر کیجئے اور ان کا ساتھ دیجئے، ایسے لوگ علماء سلف کے نمونے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔ ایسا اس لئے کہ یہ ان کا مشن ہی نہیں ہوتا، وہ دیگر لوگوں کی طرح اپنی نوکری کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ اگر وہ چاہیں اور ٹھان لیں تو ان کو اتنے مواقع میسر ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مقتدین کو کچھ بھی سکھا سکتے ہیں اور ان کی فکروں کو کسی بھی مثبت رخ پر موڑ سکتے ہیں لیکن آپ کو ایسا دیکھنے کو شاید ہی ملے۔ ہاں ان کے جمعہ کے بیانات ضرور لچھے دار اور فلسفیانہ ہوسکتے ہیں جن کا اکثر اوقات عام لوگوں کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان کے مقتدیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وضو کیسے ٹوٹ جاتا ہے یہ انہیں معلوم نہیں!
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شخص ضروری دین سیکھے اور دینی معاملات میں خود کفیل بنے۔ یہی اسلام کا مزاج بھی ہے، مطالبہ بھی اور ہماری آپ کی ذمے داری بھی۔ نماز جنازہ کوئی ایسی مشکل چیز نہیں جو آدمی نہیں سیکھ سکتا ہو۔ نماز جنازہ میں چار چیزیں پڑھی جاتی ہیں؛ ثناء ، سورۃ الفاتحہ، درود شریف اور جنازے کی دعا۔ ثناء ، سورۃ الفاتحہ اور درود شریف تو لگ بھگ سارے مسلمانوں کو یاد ہوتا ہی ہے یا کم از کم ان کو جو نماز کے پابند ہوتے ہیں، صرف جنازے کی دعا ئیں یاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتب احادیث میں جنازے کی کئی دعائیں وارد ہوئی ہیں، ان میں سے کسی ایک یا دو کو نماز یا مسنون دعاؤں کی کسی مستند کتاب سے یاد کرلینا چاہیے اور اس کے معنی کو بھی سمجھ لینا چاہیے تاکہ دعا مانگتے وقت زبان اور دل کے مابین مطابقت ہو۔ کسی امام کے پیچھے بھی جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہو تو دعا مقتدیوں کو پڑھنا ہی ہے لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ دعا یاد نہیں ہوتی۔ یہ سخت محرومی کی بات ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب ایک شخص دور دراز سے سفر کر کے اپنے والدین یا کسی رشتے دار کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے آتا ہے لیکن نماز جنازہ دوسروں سے پڑھواتا ہے اور خود اس میں دعا بھی نہیں پڑھ پاتا کیوں کہ یاد ہی نہیں ہوتی۔
کچھ لوگ نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے، ایسے لوگوں سے نماز جنازہ کی امامت بالکل نہیں کروانی چاہیے کیوں کہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ کی سنت ہے اور صحیح روایت سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ صحیح بخاریؒ کی روایت ہے کہ طلحہ بن عبداللہ بن عوف ؓ نے فرمایا: ’’صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمَا عَلٰی جَنَازَۃٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، قَالَ: لِیَعْلَمُوا أَنَّھَا سُنَّۃٌ ‘‘ (مفہوم): میںنے عبد اللہ بن عباسؓ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورۃ الفاتحہ (تھوڑا جہر کے ساتھ) پڑھی، پھر فرمایا: (ایسا میں نے اس لئے کیا) تاکہ تم جان لو کہ یہی سنت نبویؐ ہے۔ ( صحیح بخاریؒ ، رقم الحدیث ۱۳۳۵ )۔ اس لئے جو لوگ جان بوجھ کر نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے وہ سنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بعض فقہاء نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز جنازہ ایک نماز ہی ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُمْ‘‘ ’’تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو‘‘ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۲۲۹۵) اور نماز کے لئے آپؐ نے فرمایا ہے: ’’لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘ یعنی سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۵۶)۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ میں ضرور ہی پڑھی جائے اور جو لوگ نہیں پڑھتے ان سے نماز نہ پڑھوائی جائے۔
نماز کا مختصر طریقہ یہ ہے: سب سے پہلے نماز جنازہ کی نیت کرنا چاہیے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، کچھ لوگ لمبی چوڑی نیت کے الفاظ یاد کرواتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں۔ صرف دل میں یہ نیت رکھیںکہ میت کی مغفرت کے لئے اور اللہ کو راضی کرنے کے جذبہ سے نماز جنازہ پڑھتا ہوں پھر اللہ اکبر (پہلی تکبیر) کہیں، اس کے بعد نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر ثناء اور سورۃ الفاتحہ پڑھیں، پھر اللہ اکبر (دوسری تکبیر) کہیں، اس کے بعد درود شریف پڑھیں جو عام نمازوں میں پڑھتے ہیں پھر اللہ اکبر (تیسری تکبیر) کہیں، اس کے بعد میت کے لئے دعائیں ہیں، جو دعا یاد ہو وہ پڑھ لیں۔ نماز جنازہ کی ایک دعا یہ ہے: ’’اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا، وَ شَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا، وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا، وَ ذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا، اللّٰھُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ‘‘ (ترجمہ): ’’ اے اللہ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مُردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللہ ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔‘‘ ( سنن ترمذیؒ، رقم الحدیث ۱۰۲۴)۔ اس دعا کے بعد پھر اللہ اکبر (چوتھی تکبیر) کہیں، اس کے بعد سلام پھیر کر نماز ختم کریں۔ بعض روایات میں چوتھی تکبیر کے بعد بھی مختصر سی دعائیں وارد ہوئی ہیں پھر سلام ہے تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ یہ سنت بھی ہمارے دیار میں متروک ہے۔ اس جگہ بعض فقہاء کے مطابق ’’ربنا آتنا فی الدنیا‘‘ والی دعا پڑھی جاسکتی ہے جو عموماً سب کو یاد ہوتی ہے۔ مختصر بات یہ کہ جب علم حاصل کریں گے تب ہی عبادات کو سنت کے مطابق ادا کرسکیں گے اور عبادات میں حسن پیدا ہوگا۔ جب علم ہی نہیں ہوگا تو اس کا احساس بھی نہیں ہوگا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟
ہاں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام مسجد سے نماز جنازہ پڑھوانے میں کوئی فضیلت ہے اور بعض فقہاء نے نماز جنازہ کی امامت کے مستحقین کے سلسلے میں لمبی چوڑی ترتیب بھی لکھ دی ہے، سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیںملتی۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایسا واقعہ ہوا ہے کہ کسی صحابیؓ یا صحابیہؓ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اور ان کی تجہیز و تکفین ہوگئی اور آپؐ کو بعد میں اس کی اطلاع ہوئی۔ اگر نماز جنازہ میں امیر شہر، قاضی یا حاکم یا امام وقت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا تو لازماً رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی آپؐ نے اس کی تاکید کی۔ اس لئے اس کی کوئی اصل نہیں، اپنے قریبی متعلقین میں سے جو شخص علم اور تقویٰ کے لحاظ سے برتر ہو وہ نماز جنازہ پڑھائے یہی بہتر ہے۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قریبی رشتے داروں کا دل اس حادثہ کی وجہ سے مغموم اور ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور اللہ کے یہاں ٹوٹے ہوئے دل کی بڑی قدر ہوتی ہے، اس لئے وہ جو دعائیں کریں گے وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہوگی۔تاہم اگر مرنے والے شخص نے کسی کو اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کردی ہو تو سب سے پہلا حق امامت کا اسی شخص کو ہوگا یعنی مرنے والے شخص کی وصیت کا لحاظ رکھا جائے گا، صحابہ کرام ؓکے طرز عمل سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وصیت کی تھی کہ حضرت عمرؓ ان کے جنازے کی نماز پڑھائیں، اسی طرح حضرت عمرؓ نے حضرت صہیبؓ، حضرت عائشہؓ نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ام سلمہؓ نے سعید بن زیدؓ کے بارے میں اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کی تھی جس کا صحابہ کرامؓ نے لحاظ رکھا ۔ اس لئے اگر آپ چاہیں تو اپنی نماز جنازہ کی امامت کے لئے کسی متقی اور پرہیزگار شخص کے بارے میں وصیت کرسکتے ہیں جو آپ سے محبت رکھتا ہو۔ امید ہے کہ میری یہ تحریر آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور ہی جھنجھوڑے گی اور عملی اقدام پر آمادہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے علم پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین! وما علینا الا البلاغ !
(رابطہ: mwzafar.pu@gmail.com )
٭٭٭٭٭

Leave a Comment