علم و عمل کی جامع شخصیت: حضرت مولانا ہارون الرشید صاحبؒ

ڈاکٹر نورالسلام ندوی

پہلا قسط 

موت سے کسی کو رستگاری نہیں ، اس کا ایک دن معین ہے جو دنیا میں آیا ہے موت اس کا مقدر ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسی کیسی شخصیتیں نگاہوں سے رخصت ہو گئیں، کیسے کیسے اہل علم ، عالم، فاضل ، دانشور اور ادیب کو موت نے لقمہ اجل بنالیا۔قلب وجگر پر کیا گزری،اسے الفاظ میں ڈھالنامشکل ہے۔ سینے میں ان کے داغ اور دل میں ان کی یادوں کے نقوش تازہ ہیں۔ مخدوم گرامی حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب قاسمی 14-15 فروری 2021 کی شب داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی جدائیگی کا غم بالکل جدا ہے، وہ بہار کی خاک سے اُٹھے اور یہیں آسودہ خاک ہوئے ۔ ان کی عمر تقریباً 85 سال کی تھی ، انہوں نے بھرپور زندگی گزاری، لمبی عمر پائی، مختصر علالت کے بعد مالک حقیقی سے جا ملے، خدائے وحدہ لاشریک انہیں جنت کا مکیں بنائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
خاندانی احوال
حضرت مولانا ہارون الرشید بن محمد طاہر حسین بن امانت حسین بن صفدر خاں کی ولادت یکم جنوری 1939 کو ہوئی ۔ان کا وطن جمال پور ، دربھنگہ ہے ، یہ بستی دربھنگہ ضلع کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ یہ مشہور ندی کوسی کے مغربی باندھ سے متصل پچھم واقع ہے۔ اس سے آگے سہرسہ ضلع کا حلقہ شروع ہوتا ہے ۔ دربھنگہ مہاراج کی زمین داری اسی سرحد میں آکر ختم ہوتی تھی ۔ یہاں کے باشندے نسلاً شیخ اور میزاجاً خان ہیں۔ خان کا یہ معزز خطاب دربھنگہ مہاراج نے یہاں کے باشندوں کو بہادری کی بنیاد پر عطا کیا تھا ۔ مولانا کی پیدائش کے چند سالوں کے بعد ہی والدہ محترمہ دنیا سے چل بسیں، اس وقت ان کی عمر محض تین سال تھی، اسی سال آپ کی دادی کا بھی انتقال ہوا تھا ۔ جب تھوڑا بڑے ہوئے اور عمر کی بارہویں سال میں داخل ہوئے تو والد محترم جناب طاہر حسین صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ دادا کے رہتے ہوئے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اس اعتبار سے آپ محجوب الارث ہوئے اور یتیمی کا داغ بھی سہنا پڑا ۔اس عہد میں آمد و رفت کے وسائل بہت محدود تھے، ذریعہ معاش کھیتی اور مال مویشی تھا ، بچوں کواعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیجنے کا رواج کم تھا ۔
تعلیم و تربیت
جب آپ چارسال کے ہوئے تو مکتب میں بٹھلائے گئے، ناظرہ قرآن اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، جب کچھ بڑے ہوئے تو مولانا مقبول احمد کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ گلستاں، بوستاں اور دووسری کتابیں انہیں سے پڑھیں۔ مولانا مقبول احمد کو اردو اور فارسی کی اچھی استعداد تھی، انہوں نے مولانا کو محنت سے پڑھایا۔آگے کی تعلیم و تربیت کی فکر مندی آپ کے مامو ںجناب امین حسین خاں مرحوم نے کی،وہ بہت تنگدستی کا دور تھا ، والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا ، بڑی مشقت کی زندگی گزر رہی تھی، ان حالات میں امین حسین خاں نے آپ کا داخلہ مدرسہ رحمانیہ سپول میں کروا دیا ۔ یہاں آپ نے چار سال تعلیم حاصل کی، حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ، مولانا شمش الہدیٰ صاحب اور مولانا محمد انوار صاحب سے استفادہ کیا ۔ اس وقت مدرسہ امدادیہ کی تعلیم کا چرچا ہر سو تھا ، 1956 میں آپ نے مدرسہ امدادیہ لہریہ سرائے دربھنگہ میں داخلہ لیا ، لیکن یہاں زیادہ دنوں تک تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ ایک سال یہاں زیر رتعلیم رہے اور تہذیب ، شرح تہذیب ، کنز الدقائق اور شرح جامی جیسی کتابیں پڑھیں، یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالرحیم ، مولانا محی الدین، مولانا عبداللہ ختنی خاں، مولانا عبداللہ چمپارنی اور مولانا عابد اللہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ امدادیہ کے بعد 1957 میں جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد تشریف لے گئے، یہاں ایک سال رہے۔ مولانا نظیر احمد سے شرح وقایہ ، مولانا شاہ مرادآبادی سے شرح تہذیب اور سلم العلوم ، مولانا انصارالحق امروہی سے شرح جامی پڑھی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور یہاں تین سالوں تک رہ کر اکابر اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا اور 1960 میں سند فضیلت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ میں علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ، حضرت مولانا سید فخر الحسن ، شیخ فخر الدین مرادآبادی ، مولانا نصیر احمد خاں ، مولانا سید اختر حسین ،مولانا قاری محمد طیب ، مولانا محمد نعیم، مولانا سید حسن اور مولانا بشیر احمد خاں کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
حافظہ
حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب پڑھنے میں بلا کے ذہین اور تیز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بے مثال قوت حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ جو سبق ایک بار اچھی طرح پڑھ لیتے یاد ہو جاتا ، اس لئے دوران طالب علمی طلبہ کے درمیان ہمیشہ ممتاز رہے اور اساتذہ کے منظور نظر رہے۔آپ کی یاد داشت بھی غضب کی تھی، جو چیز ایک مرتبہ حافظہ میں آجاتی اس کا گرفت سے باہر نکل جانا مشکل تھا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات
جب آپ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے اس وقت کسی کام سے دہلی جانا ہوا ، یہ وہ دور تھا جب مولانا ابوالکلام آزاد کی پورے ملک میںبڑی شہرت تھی۔بڑے بڑے لوگوں کو ان سے ملنے اور ان کی تقریر سننے کی خواہش ہوا کرتی تھی،مولانا کے دل میں بھی ان سے ملنے کی آرزو تھی۔ ان سے ملنے ان کے بنگلہ تشریف لے گئے۔ اس وقت مولانا آزاد ملک کے وزیر تعلیم تھے اور بے حد مصروف رہا کرتے تھے ۔ ملی ، سماجی، سیاسی اور تعلیمی اجلاس ،کانفرنس اور میٹنگ میں شرکت کی وجہ سے عام لوگوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔ مولانا ہارون الرشید صاحب مولانا آزاد کے پاس اس وقت پہنچے جب وہ کسی اجلاس میں شرکت کے لئے جانے کی تیاری کر رہے تھے ، مولانا آزاد نے ان کا استقبال کیا اور چائے سے ضیافت کی ۔ ملاقات مختصر ہوئی لیکن خوشگوار رہی۔ ملک کی تازہ صورت حال اور مسلمانوںکے تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ یہ واقعہ غالباً 1957 کا ہے۔مولانا کبھی کبھی یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا کرتے تھے۔
جامعہ رحمانی مونگیر میں بحیثیت استاذ
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد دربھنگہ کے ایک عالم مولانا فضیل صاحب راجستھان کے نول گڑھ میں پڑھاتے تھے،اور کتاب کی تجارت بھی کرتے تھے،جس کی وجہ سے ان کا دیوبند آنا جانا تھا،وہ اپنے ساتھ مولانا کو راجستھان لے گئے ۔لیکن وہاں طبیعت نہیں جمی،عمارت کے اعتبار سے مدرسہ بڑا ضرور تھا لیکن ابتدائی تعلیم ہوتی تھی۔وہیں سے انہوں نے دو خط لکھا،ایک خط حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے نام اور ایک خط حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ امیر شریعت بہار کے نام تحریر کیا اور تدریس کے لئے مناسب جگہ کی درخواست کی۔جواب میں قاری محمد طیب صاحبؒ نے آسام میں کسی جگہ کی نشان دہی کی،شرح وقایہ پڑھانے کی ذمہ داری تھی۔دوسرے خط کا جواب امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒنے دیا اور تحریر کیا کہ سردست کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔کچھ دنوں کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر کے ناظم تعلیمات کا خط آیا ،انہوں نے لکھا کہ یہاں مولانا شفیق صاحب کی جگہ خالی ہو رہی ہے،آنا چاہتے ہیں تو آجائیں ۔اس کے بعد آپ جامعہ رحمانی مونگیر تشریف لے گئے۔اس وقت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ؒ بھی وہاں مدرس تھے۔1960 کے اواخر میں آپ وہاں گئے،اور 1962تک مدرس رہے۔
جامعہ رحمانی مونگیر میں عربی پنجم تک کے طلبہ کو پڑھایا،جلد ہی آپ کا شمار کامیاب اساتذہ کی فہرست میں ہونے لگا،طلبہ آپ کے درس سے بہت خوش ہوتے۔آپ زیادہ دنوں تک یہاں خدمت انجام نہیں دے سکے،اور تقریبا دوسالوں کے بعد جامعہ رحمانی سے علحدہ ہو گئے۔

Leave a Comment